بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق قبل النکاح کی ایک صورت


سوال

زید نے کہا کہ اگر میں ممبئی نامی بستی کی کسی بھی لڑکی سے نکاح کروں یا میرے نکاح میں آئے تو تین طلاق ہے، اب اگر اسی بستی کی کوئی بھی لڑکی سے نکاح کرنا چاہے تو اس کا حکم کیاہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اس بستی کی جس لڑکی سے یہ شخص از خود نکاح کرے گا اس پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور آئندہ کے لیے یہ بیوی اس شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جائے گی۔ البتہ اگر کوئی دوسرا شخص قسم کھانے والے شخص کی اجازت یا حکم کے بغیر اس کا نکاح اس بستی کی  کسی عورت سے کردے، اور پھر قسم کھانے والے شخص کو آکر اس نکاح کے بارے میں بتادے، اور وہ زبان سے کچھ کہے بغیر، مہر کی رقم ادا کرکے عملی طور پر رضامندی کا اظہار کردے تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 348):

"(قوله: إلا المضافة إلى الملك) أي في نحو: كلما تزوجت امرأةً فهي طالق ثلاثاً، فطلق امرأته ثلاثاً، ثم تزوجها، فإنها تطلق؛ لأن ما نجزه غير ما علقه، فإن المعلق طلاق ملك حادث فلايبطله تنجيز طلاق ملك قبله".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 345):

"(قوله: وكذا كل امرأة) أي إذا قال: كل امرأة أتزوجها طالق، والحيلة فيه ما في البحر من أنه يزوجه فضولي، ويجيز بالفعل كسوق الواجب إليها، أو يتزوجها بعد ما وقع الطلاق عليها؛ لأن كلمة كل لاتقتضي التكرار. اهـ. وقدمنا قبل فصل المشيئة ما يتعلق بهذا البحث."

 فقط  واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144106201056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں