بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق رجعی دینے کے بعد بیوی کو کہا آپ مجھ پر میری ماں کی طرح ہو


سوال

ایک شخص نے پچھلے سال اپنی بیوی کو ایک طلاق دی اور ایک سال تک رجوع نہیں کیا۔ایک سال بعد تجدید نکاح کر لیا اور پھر  ایک بار کہا کہ تجھے طلاق ہے، اور پھر کہا کہ آپ مجھ پر ماں کی طرح ہو،اب اس صورت میں نکاح کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو اگر دوسری طلاق رجعی دینے کے بعد اس کی عدت میں اسے یہ کہا تھا کہ : "آپ مجھ پر میری ماں کی طرح ہو" تو اگر اس نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے کہے تھے تو اس صورت میں ان الفاظ سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی، اور مذکورہ شخص کی بیوی اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی، نہ رجوع جائز ہوگا اور نہ ہی حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح حلال ہوگا۔ البتہ اگر اس نے یہ الفاظ ظہار کی نیت سے کہے ہوں تو شرعاً ظہار کا حکم ہوگا، یعنی اس صورت میں جب تک شوہر  ظہار کا کفارہ  (غلام آزاد کرنا، یا پے در پے دو ماہ کے روزے رکھنا، یا مسلسل روزہ رکھنے کی قوت نہ ہونے کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا) ادا نہ کردے  اپنی منکوحہ سے ازدواجی تعلق قائم کرنا حلال نہیں ہوگا، پس اس صورت میں شوہر کو اپنی مطلقہ بیوی سے دورانِ عدت زبانی رجوع کا حق حاصل ہوگا، اور رجوع نہ کرنے کی صورت میں عدت کے بعد باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کی بھی اجازت ہوگی، تاہم بہر صورت جب تک مذکورہ شخص کفارہ ظہار ادا نہ کردے  مذکورہ خاتون سے ازدواجی تعلقات قائم کرنا حلال نہ ہوگا، البتہ اگر اس نے ماں کی طرح بیوی کو مکرم قرار دینے کی نیت سے یا بغیر نیت سے مذکورہ الفاظ کہے ہوں تو اس کے کہنے سے نہ طلاق ہوگی اور نہ ہی ظہار ہوگا، شوہر کو دوران عدت رجوع کا حق حاصل ہوگا، اور رجوع کے بعد ازدواجی تعلقات قائم کرنا بھی جائز ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: "لَوْ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ طَلَاقًا رَجْعِيًّا ثُمَّ ظَاهَرَ مِنْهَا فِي عِدَّتِهَا صَحَّ ظِهَارُهُ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ". (الْبَابُ التَّاسِعُ فِي الظِّهَارِ، ١/ ٥٠٨)

وفیه أیضاً:

"قَالَ لَهَا: أَنْتِ مِثْلُ أُمِّي، وَلَمْ يَقُلْ: عَلَيَّ وَلَمْ يَنْوِ شَيْئًا، لَايَلْزَمُهُ فِي قَوْلِهِمْ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ". (الْبَابُ التَّاسِعُ فِي الظِّهَارِ، ١/ ٥٠٧)

وفیه أیضاً:

"وَحُكْمُ الظِّهَارِ: حُرْمَةُ الْوَطْءِ وَالدَّوَاعِي إلَى غَايَةِ الْكَفَّارَةِ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ". (الْبَابُ التَّاسِعُ فِي الظِّهَارِ، ١ / ٥٠٦)

فتاوی شامی میں ہے:’’وان نوی ب’’أنت علي مثل أمي‘‘برًا أوظهارًا أو طلاقاً صحت نیته ووقع مانواه ... وإلا لغا‘‘. (شامی ۳؍۴۷۰)

البحر الرائق میں ہے: 

"وَإِنْ نَوَى بأنتِ عليّ مِثْلُ أُمِّي بِرًّا أو ظِهَارًا أو طَلَاقًا فَكَمَا نَوَى وَإِلَّا لَغَا ) بَيَانٌ لِلْكِنَايَاتِ، فَمِنْهَا: أَنْتِ عَلَيَّ مِثْلُ أُمِّي أو كَأُمِّي فَإِنْ نَوَى الْكَرَامَةَ قُبِلَ منه؛ لِأَنَّهُ مُسْتَعْمَلٌ فيه، فَالتَّقْدِيرُ أَنْتِ عِنْدِي في الْكَرَامَةِ كَأُمِّي، وَإِنْ نَوَى الظِّهَارَ كان ظِهَارًا بِكَوْنِهِ كِنَايَةً فيه، وإذا نَوَى الطَّلَاقَ في مَسْأَلَةِ الْكِتَابِ كان بَائِنًا كَلَفْظِ الْحَرَامِ، وَإِنْ لم يَنْوِ شيئا كان بَاطِلًا". (البحر الرائق:4/104)

"وإن نوی بأنت عليّ مثل أمی أو کأمي برًا، أوظهارًا، أوطلاقًا صحت نیته ووقع مانواه لأنه کنایة‘‘. (شامی:۳؍۴۵ط:سعید)

"وَلَوْ قال لها: أَنْتِ مِثْلُ أُمِّي أو كَأُمِّي يَنْوِي، فَإِنْ نَوَى الطَّلَاقَ وَقَعَ بَائِنًا، وَإِنْ نَوَى الْكَرَامَةَ أو الظِّهَارَ فَكَمَا نَوَى، هَكَذَا في فَتْحِ الْقَدِيرِ. وَإِنْ لم تَكُنْ له نِيَّةٌ فَعَلَى قَوْلِ أبي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى لَايَلْزَمُهُ شَيْءٌ حَمْلًا لِلَّفْظِ على مَعْنَى الْكَرَامَةِ". (الفتاوى الهندية:1/507) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201351

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں