بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق اور تحلیل کا شرعی حکم


سوال

طلاق اور  حلالہ  کی  شرعی  حیثیت  کیا ہے ؟ طلاق اور حلالہ کا اگر ہنسی مذاق میں تذکرہ کیا جائے تو یہ تذکرہ کرنا کیسا ہے ؟

جواب

شریعت میں ازدواجی رشتے سے مقصود  دائمی ربط قائم کرنا ہے، اس لیے شرعاً طلاق انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے، تاہم ناگزیر اَحوال میں  شریعت نے طلاق کا اختیار  مرد کو دیا ہے، اور اس ضمن میں  شریعت کی راہ نمائی یہ ہے کہ اگر میاں بیوی میں اختلاف ہوجائے تواولاً  نباہ  کی پوری کوشش کی جائے، اگر کسی کی فہمائش یا کسی بھی طریقے سے بات بن سکتی ہو تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے، لیکن اگرنباہ اورصلح کی کوئی صورت نہ ہو اورطلاق کے سواکوئی چارہ ہی نہ رہے تو طلاق دینے کابہترطریقہ یہ ہے کہ عورت کوپاکی کی حالت میں ایک طلاقِ رجعی دے دی جائے،ایک طلاق کے بعد عدت کے اندراگرچاہیں تورجوع کرلیں اور رجوع نہ کرناچاہیں تو عدت گزرنے کے بعد عورت آزادہوگی، وہ کسی اورسے نکاح کرناچاہے تو درست ہوگا، اس کو شریعت میں" طلاقِ احسن" کہتے ہیں، ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزرجائے پھرصلح کی کوئی صورت نکل آئے تو نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے،ایسی صورت میں آئندہ دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

بیک وقت تین طلاقیں دینا شرعاً ناپسندیدہ ہے، اس لیے بیک وقت تین طلاقیں نہ دی جائیں، لیکن اگر تین طلاقیں ایک ساتھ  دے دی جائیں، یا ایک طہر (پاکی کے ایام) میں وقفے وقفے سے دے دی جائیں، یا تین طہروں (پاکی کے ایام میں) تین طلاقیں دے دی جائیں، یا مختلف اوقات میں  دو جدا جدا طلاق دے کر رجوع کرلیا گیا ہو، اور  پھر تیسری طلاق بھی دے دی ہو تو   ان تمام صورتوں میں تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں،اورتین طلاقوں کے بعد رجوع اور دوبارہ  نکاح کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔

لہذااگر کوئی شخص ان شرعی احکام و رعایات کا فائدہ نہ اٹھائے اور جذباتی فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاقیں ایک ساتھ دے دے تو اسے حق نہیں کہ وہ عدت کے دوران رجوع کرے یا تجدیدِ نکاح کے ذریعے رشتہ دوبارہ استوار کرے، ایسی صورت میں عورت عدت گزارنے کے بعد اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتی ہے، ایسے زوجین کے لیے فیصلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اب باہم رجوع ہی نہ کریں؛ کیوں کہ وہ اتنے اہم رشتے کے معاملے میں جب حساس نہیں ہیں، اور ساری زندگی کا تعلق  چند سیکنڈ کے جذبات کی نذر کردیتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ وہ اب دوبارہ  ساتھ  نہ  رہیں،  شوہر  کی سزا بھی یہی ہے کہ جس نے اپنے اور عورت کے مستقبل کا سوچے سمجھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے،  اسے کسی صورت رجوع کا حق نہ دیا جائے، اور غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ رجوع نہ کرے۔
تاہم  قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں ایسے زوجین کے لیے دوبارہ ساتھ زندگی گزارنے کی مشروط اجازت دی ہے، لہٰذا از روئے قرآنِ کریم اور احادیثِ  مقدسہ جس عورت کو طلاقِ مغلظہ یعنی تین طلاقیں واقع ہوجائیں،  اس کا اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح اس وقت تک جائز نہیں  جب تک کہ پہلے شوہر کی عدت گزرجانے کے بعد اس عورت کا کسی اور جگہ نکاح نہ ہوجائے اور وہ دوسرا شوہر حقوقِ  زوجیت ادا کرنے  کے بعد اس کو طلاق دے دے یا اس شوہر کا انتقال ہوجائے، پھر اس دوسرے شوہر کی عدت بھی گزر جائے تو اب سابقہ شوہرسے نکاح جائز ہے۔  البتہ دوسرے نکاح میں اس طرح کی شرط لگاکر نکاح کرنے والے اور کروانے والے پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے، اگرچہ اس کے باوجود بھی عورت اپنے سابقہ شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی، اس لیے کہ نکاح کے جائز ہونے کے لیے جو شرط تھی وہ بہرحال پائی جا رہی ہے، اسی طرح اگر دوسرا نکاح کروانے وغیرہ کے معاملات میں پہلا شوہر بھی شامل (خواہ گواہ کے طور پر) ہو تو وہ بھی لعنت کا مستحق ہے، اس سے معلوم ہوا کہ  مطلقہ ثلاثہ کو سابق شوہر کے لیے حلال کرنے کے عمل کو باقاعدہ پیشہ بنانے  والے  یا مشروط طور پر یہ عمل کرنے والے (خواہ ایک مرتبہ ہی یہ فعل کیا جائے) حدیث  کی  رو  سے لعنت  کے مستحق  اور گناہ گار ہیں ۔

تین طلاق یافتہ عورت کے پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کے مذکورہ عمل کو "تحلیل" کہا جاتاہے، جس کا معنی حلال کرنا ہے، اور یہ لفظ حدیث میں استعمال ہوا ہے، یعنی دوسرے شوہر کا نکاح کرکے بیوی سے تعلق قائم کرنا اور پھر اس کے بعد اس کا طلاق دینا اور اس کی عدت کا گزر جانا، اس عورت کو پہلے شوہر کے لیے حلال کردے گا، نیز قرآنِ مجید میں بھی "لاتحل له حتى تنكح زوجًا غيره"کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی عورت اس وقت تک سابق شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی جب تک دوسرا شوہر اس سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرلے، نصوص میں وارد ان دونوں لفظوں اور ان کے مفہوم کو پیشِ نظر رکھ کر بعض بزرگوں نے "حلالہ" کی اصطلاح استعمال کی ہے، جس کا مفہوم اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ تین طلاق یافتہ عورت خود، یا اس کے اولیاء یا وکیل غیر مشروط طور پر  اس کا نکاح کسی دوسری جگہ کریں اور دوسرے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد وہ اسے از خود طلاق دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس سے یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی، اسی مفہوم میں ان حضرات نے "حلالہ" کی اصطلاح استعمال کی ہے جو نصوص سے ماخوذ ہے، جہاں تک اس عمل کو پیشہ بنانا یا مشروط طور پر نکاح کرنا ہے تو  ان ہی بزرگوں نے از روئے نصوص اسے باعثِ لعنت فعل اور گناہ گردانا ہے، لہذا اگر کوئی شخص "حلالہ" کی اصطلاح استعمال کرکے مذکورہ پیشہ مراد لیتا ہے یا مشروط نکاح مراد لیتا ہے تو خیانت اور غلط ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل ذہن نشین رکھنے کے بعد  "طلاق اور حلالہ  سے متعلق ہنسی مذاق میں گفتگو کرنے" سے اگر آپ کی مراد  ان اَحکام کو ہنسی مذاق کا ذریعہ بنانا ہے، تو اس کی ہرگز اجازت نہیں ہے، شرعی اَحکام کو ہنسی مذاق کا ذریعہ بنانا سخت گناہ کبیرہ ہے، بسااوقات دینی اَحکام  کے  ساتھ  ہنسی مذاق کی بناپر آدمی دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجاتاہے ، اس لیے اس سلسلہ میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔

اور اگر مشروط طور پر دوسری جگہ نکاح کروانے یا اس عمل کو پیشہ بنانے سے متعلق ہنسی مذاق ہو، تو یاد  رہے کہ پختہ کار اہلِ علم وہی ہوتے ہیں جو دینی اَحکام بیان کرتے ہوئے سنجیدگی برقرار رکھتے ہیں، لہٰذا کسی گناہ گار  میں مبتلا لوگوں کو بھی ناصحانہ  و  درد مندانہ  انداز  اور حکیمانہ اسلوب میں روکنا چاہیے، اور جہاں سختی سے رد کی ضرورت ہو تو  اس کی راہ نمائی بھی قرآنِ مجید اور احادیثِ مقدسہ کی ان نصوص میں موجود ہے، جہاں گناہوں کی وعیدات  وارد ہوئی ہیں، بہرحال طلاق وغیرہ اَحکام بھی شریعت کے احکام ہیں؛ لہٰذا انہیں مذاق بنانا جائز نہیں ہے۔ 

البتہ اگر آپ کی مراد سوال سے یہ ہو کہ ہنسی مذاق میں طلاق دینے کا کیا حکم ہے؟   سو اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ہنسی مذاق میں طلاق دے تب بھی طلاق واقع ہوجائے گی، چنانچہ حدیث شریف میں ہے :

" حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  تین چیزیں ایسی ہیں جن کا قصد کرنا بھی قصد ہے اور ہنسی مذاق میں منہ سے نکالنا بھی قصد ہے:  نکاح، طلاق، رجعت۔  (ابوداؤد)"۔

یعنی  تین چیزیں ایسی ہیں جو زبان سے ادا ہوتے ہی وقوع پذیر ہو جاتی ہیں خواہ ان کے معنی مراد ہوں یا مراد نہ ہوں ۔ چنانچہ اگر دو اجنبی مرد وعورت کے درمیان ہنسی ہنسی میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول ہو جائے تو بھی نکاح ہو جاتا ہے اور وہ دونوں میاں بیوی بن جاتے ہیں یا اگر کوئی ہنسی مذاق میں طلاق دے دے تو بھی طلاق واقع جائے گی، اسی طرح طلاقِ رجعی کے بعد ہنسی ہنسی میں رجوع کرنے سے بھی رجوع ثابت ہو جاتا ہے، ان تین چیزوں کے علاوہ اور چیزیں مثلًا بیع وشراء وغیرہ اس طرح ہنسی مذاق میں وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔(مظاہرحق)

مسند أحمد  (8/ 266):

"عن أبي هريرة قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحل والمحلل له".

فتاویٰ شامی میں ہے:

"( وكره ) التزوج للثاني ( تحريماً )؛ لحديث: لعن المحلل والمحلل له، ( بشرط التحليل )، كتزوجتك على أن أحللك، ( وإن حلت للأول )؛ لصحة النكاح وبطلان الشرط، فلا يجبر على الطلاق".

(شامی، كتاب الطلاق، باب الرجعة ۳/ ۴۱۵ ط:سعيد)

النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 423):

"(وكره) النكاح كراهة تحريم (بشرط التحليل) بأن يقول: تزوجتك على أن أحللك أو تقول هي، وعلى هذا حمل ما صححه الترمذي: (لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل له) قيد باشتراط؛ لأنهما لو نوياه فقط لم يكره، بل يكون الرجل مأجورًا لقصده الإصلاح، وإن وصلية حلت (للأول)".

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144106200238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں