بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طاعون یا وبائی امراض کے پھیل جانے یا شدید ژالہ باری کے موقع پر اذان دینے کی شرعی حیثیت


سوال

کیا کسی وباء کےآنے یا تیز ژلہ باری میں اذان دے سکتے ہیں؟ شریعت میں کوئی  ثبوت ہے، آج کل لوگ رات 10:00 کے بعد لاوڈسپیکر پر اذان دے رہے ہیں کرونا بیماری کی وجہ سے،  کیا یہ صحیح ہے؟  اس سے  یہ وبا ختم ہو جاتی ہے؟

جواب

وبا کے خاتمے کے لیے اذان دینے کے بارے میں فقہائے احناف سے کوئی روایت منقول نہیں ہے،  نیز قرآنِ مجید یا کسی حدیث میں بھی اس کا ذکر موجود نہیں ہے، البتہ شوافع کے ہاں  مصائب ، شدائد اور عمومی پریشانیوں کے بعض مواقع پر اذان دینے کی اجازت منقول ہے، اس لیے شدید ژالہ باری یا   وبا کے خاتمے کے لیے اذان دینے کی گنجائش ہے، تاہم اس میں درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:

1۔۔ اس عمل کے سنت یا مستحب ہونے کا اعتقاد نہ ہو۔

2۔۔  اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر  نہ کیا جائے۔

3۔۔ مساجد میں یہ اذان نہ دی جائے۔

4۔۔  اس کے لیے کسی مخصوص ہیئت اور  اجتماعی کیفیت کا التزام نہ کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے :

" مطلب في المواضع التي يندب لها الأذان في غير الصلاة

(قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه. أقول: ولا بعد فيه عندنا. اهـ. أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه، لما قدمناه في الخطبة عن الحافظ ابن عبد البر والعارف الشعراني عن كل من الأئمة الأربعة أنه قال: إذا صح الحديث فهو مذهبي، على أنه في فضائل الأعمال يجوز العمل بالحديث الضعيف كما مر أول كتاب الطهارة، هذا، وزاد ابن حجر في التحفة الأذان والإقامة خلف المسافر. قال المدني: أقول وزاد في شرعة الإسلام لمن ضل الطريق في أرض قفر: أي خالية من الناس. وقال المنلا علي في شرح المشكاة قالوا: يسن للمهموم أن يأمر غيره أن يؤذن في أذانه فإنه يزيل الهم، كذا عن علي - رضي الله عنه - ونقل الأحاديث الواردة في ذلك فراجعه. اهـ". (1/385،باب الاذان، ط: سعید )

جامعہ ہٰذا کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’سوال:

کسی عظیم حادثے کے نازل ہونے کے بعد مسجدوں میں رات کے وقت اذانیں دی جائیں؛ تاکہ اس کی برکت سے بلا رفع ہوجائے، کیا اس کا کوئی شرعی ثبوت ہے؟

جواب:

صورتِ مسئولہ میں احناف سے اس بارے میں کوئی روایت منقول نہیں، البتہ شوافع کے اقوال سے مسنون معلوم ہوتاہے، جس پر علامہ شامی رحمہ اللہ نے کہاہے کہ ایسے مواقع پر اذان دی جائے تو ہمارے نزدیک بھی اس کی گنجائش ہے؛ لما في رد المحتار:

’’ولا بعد فيه عندنا...‘‘ الخ (کتاب الصلاة، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لها الأذان في غیر الصلاة، (1/385) ط: سعید)

البتہ یہ اذان مسجدوں میں نہ دی جائے؛ تاکہ اذانِ صلاۃ کے ساتھ التباس نہ ہوجائے۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: محمد عبدالسلام چاٹ گامی                                                                       الجواب صحیح: ولی حسن‘‘

’’کفایت المفتی‘‘  (از مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب  رحمہ اللہ) میں ہے :

’’سوال : دفعِ وباء کے لیے اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟  تنہا یا گروہ کے ساتھ مسجد میں یا گھر میں؟

جواب : دفعِ وباء کے لیے اذانیں دینا تنہا یا جمع ہوکر بطورِ علاج اور عمل کے مباح ہے، سنت یا مستحب نہیں‘‘۔  (۳ / ۵۲، دار الاشاعت ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں