بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ضروریات دین کے منکر شخص سے نکاح کا حکم


سوال

میں دین دار عورت ہوں،میرانکاح میری رضامندی سے ایک ایسے شخص سے ہوا جو سود کا لین دین کرتے ہیں۔سود کو جائز مانتے ہیں۔شریعت اور اسلامی احکام کے مطابق نہ سوچ ہے نہ ان کا عمل ہے۔بنیادی دینی احکامات  نماز،روزہ ، زکاۃ کچھ ادا نہیں کرتے،نہ نصاب کومانتے ہیں۔مرنے کے بعد سزا وجزا کو بھی نہیں مانتے ۔اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں ان کی۔ان کے پورے گھر کا ماحول غیر اسلامی  غیرشرعی ہے۔ ان سب باتوں کا علم مجھے ان کے ساتھ نکاح کے بعد رخصت ہوکران کے گھر آنے کے بعد ہوا۔نکاح سے پہلے مجھے ان کے اور ان کے گھر کے بارے میں کچھ علم نہیں تھاکہ ان کے کس طرح کے عقائد ہیں۔میرے باربار سمجھانے کے باوجودیہ اپنی اصلاح نہیں کرتے،اپنے رویئے پر قائم ہیں۔میں مندرجہ بالا باتوں کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہوں۔مجھے اللہ کو جان دینی ہے میں دین دار عورت ہونے کے ناطے ان کے عقائد ،نظریات اور اعمال کونظراندازنہیں کرسکتی،اور یہ کسی طور پر اپنی اصلاح پر آمادہ نہیں۔

۱۔اس صورت حال میں میرے لیے شریعت کا کیاحکم ہے؟کیا ان سے میرا نکاح شرعی طور قائم ہوابھی ہے یانہیں؟

کیا ایک مسلمان دین دار عورت کا نکاح ایسے شخص سے شرعی طور پر جائز کیاگیا؟مطلب میرے نکاح کی شرعی حیثیت کیاہے؟مجھے کیا کرناچاہیے؟

جواب

سود کی حرمت قرآن واحادیث مبارکہ سے ثابت ہے ،اسی طرح جزاوسزا کاعقیدہ بھی اسلام کا بنیادی عقیدہ اور قرآن کریم واحادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ ایسے تمام دینی امور جن کاثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی تواتر کے ساتھ منقول ہو ان کو ''ضروریات''دین کہاجاتاہے،جوشخص اسلام کے ان قطعی وضروری احکام کا منکریا ان میں سے کسی ایک کامنکر ہو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے،خواہ  وہ مسلمانوں کے گھرانے سے تعلق رکھتاہو اور نام بھی مسلمانوں جیساہو،اور اس کی بیوی بھی اس پر حرام ہوجاتی ہے۔

جو صورت حال  آپ نے لکھی  ہے کہ آپ کے شوہر سود کوجائز مانتے ہیں ،نصاب زکاۃ اور جزا وسزا کے منکر ہیں ، اگر حقیقۃً وہ ان احکامات کاانکار کرتے ہیں تو وہ مسلمان نہیں رہے،دین کے ان قطعی احکامات کے انکارکی وجہ سے نکاح بھی ٹوٹ چکاہے۔

اگر وہ اپنے ان کفریہ عقائد سے توبہ کرلیں تو ان سے تجدید نکاح ہوسکتاہے اور اگر اپنے رویئے اور نظریات پر قائم رہیں تو آپ کے لیے ان کے ساتھ رہناجائز نہیں ہے۔اگر اصلاح کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو اور کسی بھی طرح وہ اپنے کفریہ عقائد اور بداعمالیوں سے توبہ کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو انہیں طلاق یا خلع پر آمادہ کرکے ان  سے طلا ق یاخلع لے کر علیحدگی اختیارکرلیں تاکہ قانونی لحاظ سے دشواری نہ ہو۔

یہ تمام تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ نکاح سے قبل ان کے عقائد درست ہوں اور نکاح کے بعد انہوں نے  مذکورہ بالاکفریہ  عقائد اختیار کیے ہوں اور اگر نکاح سے قبل ہی وہ دینی احکامات اور ضروریات دین کے منکر تھے تو اس صورت میں شرعی لحاظ  سے ایسے شخص سے نکاح ہی منعقد نہیں ہوتا۔تاہم دونوں صورتوں میں اگر وہ توبہ تائب ہوکراپنی اصلاح کرلیتاہے تو جدیدنکاح کرنادرست ہوگا،ورنہ قانونی دشواریوں سے بچنے کے لیے ان سے  طلاق یا خلع حاصل کرلی جائے۔[فتاوی شامی 4/221-اکفار الملحدین ،ص:4] فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143810200005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں