بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صمد بانڈ سونگھنے سے روزے کا حکم


سوال

کیا  صمد  بانڈ سونگھنے سے روزہ ٹوٹ  جاتا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ محض صمدبانڈ سونگھنےسے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ اگر  ناک میں رکھ کر نشہ کے طور پر سونگھی جائے تو عام طور سے اس کے ذرات جوفِ دماغ تک پہنچ جاتے ہیں، اور جوفِ دماغ تک کسی چیز کا پہنچ جانا مفسدِ صوم ہے، اس لیے صمد بانڈ کو ناک میں رکھ کر سونگھنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔

 اور اگر  صمد بانڈ کو ناک میں ڈالے بغیر باہر سے ہی سونگھا جائے تو دیکھا جائے گا کہ اس  کے ذرات ناک کے راستے سے اندر گئے  یا نہیں گئے؟ اگر صمد بانڈ کے ذرات اندر چلے گئے تو روزہ ٹوٹ جائے گا، اور اگر باہر سے سونگھنے سے اس  کے ذرات اندر نہیں گئے تو صرف سونگھنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن بہرحال باہر سے سونگھنے کی صورت میں بھی  اس کے ذرات اندر چلے جانے کا احتمال موجود ہے، اس لیے صمدبانڈ سونگھنے سے روزہ بہرحال مکروہ ہو جائے گا چاہے ذرات اندر نہ بھی جائیں، لہٰذا روزے کی حالت میں ناک سے باہر صمدبانڈ رکھ کر سونگھنے سے بھی مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"وماوصل  إلى جوف الرأس والبطن من الأذن والأنف والدبر فهو مفطر بالإجماع، و فيه القضاء، و هي مسائل الأقطار في الأذن و السعوط و الوجور و الحقنة، و كذا من الجائفة والآمة."

(الفصل الثالث، ج:1، ص:253، ط:مکتبه رشیدیه)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وما وصل إلى الجوف أو إلى الدماغ عن المخارق الأصلية كالأنف والأذن والدبر بأن استعط أو احتقن أو أقطر في أذنه فوصل إلى الجوف أو إلى الدماغ فسد صومه، أما إذا وصل إلى الجوف فلا شك فيه لوجود الأكل من حيث الصورة.

وكذا إذا وصل إلى الدماغ لأنه له منفذ إلى الجوف... أو إلى الدماغ عن غير المخارق الأصلية بأن داوى الجائفة، والآمة، فإن داواها بدواء يابس لايفسد لأنه لم يصل إلى الجوف ولا إلى الدماغ ولو علم أنه وصل يفسد في قول أبي حنيفة."

(باب ارکان الصیام، ج:2، ص:93، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي دواء الجائفة والآمة أكثر المشايخ على أن العبرة للوصول إلى الجوف والدماغ لا لكونه رطبًا أو يابسًا حتى إذا علم أنّ اليابس وصل يفسد صومه، ولو علم أنّ الرطب لم يصل لم يفسد، هكذا في العناية."

(الفصل الأول، ج:1، ص:204، ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144201200370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں