بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صلاۃ التسبیح پڑھنے کا طریقہ


سوال

صلاۃ التسبیح میں پڑھنے کے لیےکیا  کوئی مخصوص اوراد  ہیں؟

جواب

صلاۃ التسبیح پڑھنے کا طریقہ درج ذیل ہے:
1۔  نیت:چار رکعت صلاۃ التسبیح کی نماز پڑھ رہا ہوں پھر ’’الله أکبر‘‘ کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور حسب معمول ثناء پڑھے ، ثنا یہ ہے:
’’سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰى جَدُّكَ، وَلَا إِلٰهِ غَيْرُكَ‘‘
پھر   أَعُوْذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ  اور  بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے:
’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘
2...رکوع میں جانے کے بعد حسبِ معمول تین مرتبہ ’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘پڑھے، پھر دس مرتبہ مذکورہ بالا تسبیح پڑھے، اس کے بعد رکوع سے اٹھے۔
3...رکوع سےاٹھتے ہوئے پہلے حسبِ معمول ’’سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهٗ  ‘‘کہے اور کھڑا ہو کر ’’ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘کہے ، پھرکھڑے کھڑے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے۔
4... پھر ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جائے اور حسب معمول ’’ سُبْحَانَ رَبِّیْ الْأَعْلیٰ‘‘ تین مرتبہ پڑھے، پھر سجدے میں دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے، اس کے بعد ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہہ کر سجدے سے اٹھے۔
5... سجدے سے اٹھ کر بیٹھے، اور بیٹھے بیٹھے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے، پھر ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘  کہہ کر دوسرے سجدے میں جائے۔
6...دوسرے سجدے میں جا کر حسب معمول پہلے ’’ سُبْحَانَ رَبِّیْ الْأَعْلیٰ‘‘  تین مرتبہ پڑھے، پھر سجدے میں دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے۔
7... دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کرمذکورہ بالا تسبیح دس مرتبہ پڑھے، پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے۔
اس طرح ایک رکعت میں پچھتر(۷۵)مرتبہ یہ تسبیحات پڑھی گئیں، اسی طرح باقی تین رکعتیں بھی پڑھ لے۔یوں چار رکعتوں میں کل تین سو تسبیحات ہو جائیں گی، دوسری اور چوتھی رکعت کے قعدے میں یہ تسبیحات التحیات پڑھنے کے بعد پڑھے۔

دوسرا طریقہ:

حضرت عبد اللہ بن مبار ک سے ایک اور طریقہ بھی ثابت ہے،وہ طریقہ یہ ہے:
’’ نیت باندھنے کے بعد ثناءپڑھے اور اس کے بعد پندرہ مرتبہ یہ مذکورہ بالا تسبیحات (’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘) پڑھے، پھرأعوذ باللہ، بسم اللہ ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت کی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے ان تسبیحات کو دس مرتبہ پڑھے، پھر دوسرے سجدے تک دس دس مرتبہ پڑھتا رہے،دوسرے سجدے سے اٹھتے ہوئے ان تسبیحات کو نہ پڑھے، بلکہ سجدے سے براہ راست ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہتاہوا سیدھا کھڑا ہو جائے، اس طریقے کے مطابق دوسرے سجدے میں دس مرتبہ پڑھنے کے بعد تسبیحات کی تعداد پچھتر (75) ہوجائے گی۔

بعض علماءکرام  دوسرے طریقے کو افضل کہتے ہیں اور وجہ فضیلت یہ بیان فرماتے ہیں کہ چوں کہ پہلے طریقے میں جلسہ استراحت کی ضرورت پڑتی ہے اور ہمارے ہاں جلسہ استراحت راجح نہیں ؛ اس لیے وہ طریقہ افضل ہے جس میں جلسہ استراحت موجود نہیں، لیکن علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان دونوں طریقوں سے صلاۃ التسبیح پڑھنی چاہیے، کبھی پہلے طریقے سے، کبھی دوسرے طریقے سے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 27):

"وأربع صلاة التسبيح بثلاثمائة تسبيحة، وفضلها عظيم.

(قوله: وأربع صلاة التسبيح إلخ) يفعلها في كل وقت لا كراهة فيه، أو في كل يوم أو ليلة مرةً، وإلا ففي كل أسبوع أو جمعة أو شهر أو العمر، وحديثها حسن ؛ لكثرة طرقه. ووهم من زعم وضعه، وفيها ثواب لا يتناهى، ومن ثم قال بعض المحققين: لايسمع بعظيم فضلها ويتركها إلا متهاون بالدين، والطعن في ندبها بأن فيها تغييراً لنظم الصلاة إنما يأتي على ضعف حديثها، فإذا ارتقى إلى درجة الحسن أثبتها وإن كان فيها ذلك، وهي أربع بتسليمة أو تسليمتين، يقول فيها ثلثمائة مرة: «سبحان الله، والحمد لله ولا إله إلا الله، والله أكبر»، وفي رواية زيادة «ولا حول ولا قوة إلا بالله»، يقول ذلك في كل ركعة خمسة وسبعين مرة ؛ فبعد الثناء خمسة عشر، ثم بعد القراء ة وفي ركوعه، والرفع منه، وكل من السجدتين، وفي الجلسة بينهما عشراً عشراً بعد تسبيح الركوع والسجود، وهذه الكيفية هي التي رواها الترمذي في جامعه عن عبد الله بن المبارك أحد أصحاب أبي حنيفة الذي شاركه في العلم والزهد والورع، وعليها اقتصر في القنية وقال: إنها المختار من الروايتين. والرواية الثانية: أن يقتصر في القيام على خمسة عشر مرةً بعد القراءة، والعشرة الباقية يأتي بها بعد الرفع من السجدة الثانية، واقتصر عليها في الحاوي القدسي والحلية والبحر، وحديثها أشهر، لكن قال في شرح المنية: إن الصفة التي ذكرها ابن المبارك هي التي ذكرها في مختصر البحر، وهي الموافقة لمذهبنا ؛ لعدم الاحتياج فيها إلى جلسة الاستراحة ؛ إذ هي مكروهة عندنا. اهـ. قلت: ولعله اختارها في القنية لهذا، لكن علمت أن ثبوت حديثها يثبتها وإن كان فيها ذلك، فالذي ينبغي فعل هذه مرةً وهذه مرةً.

[تتمة] قيل لابن عباس: هل تعلم لهذه الصلاة سورة؟ قال: التكاثر والعصر والكافرون والإخلاص. وقال بعضهم: الأفضل نحو الحديد والحشر والصف والتغابن ؛ للمناسبة في الاسم". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں