بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف لفظِ طلاق کا حکم


سوال

 زید  نے صرف لفظ طلاق بولا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بیوی کی غیر موجودگی میں طلاق واقع ہونےکے لیے یہ ضروری ہے کہ شوہر  طلاق  کی نسبت بیوی کی طرف کرے، مثلاً میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، یا اپنی بیوی کا نام لے کر کہے کہ طلاق دی اور بیوی کی موجودگی میں بھی طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرنا ضروری ہے خواہ اشارۃً نسبت کرے۔  اور اگر بیوی کی طرف نسبت نہیں کی ہے، نہ صراحۃً اور نہ اشارۃً  تو شرعاً طلاق واقع نہیں ہوتی۔

صورتِ مسئولہ میں صرف "طلاق" بولنے سے زید کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی۔

      فتاوی شامی میں ہے:

’’لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (3/250، کتاب الطلاق، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200756

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں