بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف طلاق دی کہنے کا حکم


سوال

زید نے صرف یہ کہا کہ ’’طلاق دی‘‘،  کیا اس سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بیوی کی غیر موجودگی میں طلاق واقع ہونےکے لیے یہ ضروری ہے کہ شوہر  طلاق  کی نیت یا  نسبت بیوی کی طرف کرے، مثلاً میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، یا اپنی بیوی کا نام لے کر کہے کہ فلاںہ کو طلاق دی، جب کہ بیوی کی موجودگی میں غالب یہی ہے کہ بیوی کو ہی طلاق دے رہا ہے، اس لیے (بیوی کی موجودگی میں کہنے کی صورت میں) اگر وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کی طلاق دینے کی نیت نہیں تھی تو اس سے قسم لی جائے گی، اگر وہ حلف اٹھا لے کہ اس کا ارادہ بیوی کو طلاق دینے کا نہیں تھا تو اس کے قول کا اعتبار ہوگا اور کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ـ

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اصل واقعہ کا حکم ہوگا۔

      فتاوی شامی میں ہے:

’’لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (3/250، کتاب الطلاق، ط: سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 248):
 فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلا يخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107200693

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں