بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صبح کی سنت کی قضا، نوافل اور قضا نمازوں کے اوقات


سوال

1۔صبح کی سنت نماز رہ جائے تو بعد میں ہم کون سے ٹائم پڑھ سکتے ہیں؟

2۔ نوافل کون سے ٹائم پڑھ سکتے ہیں اور کون سے ٹائم نہیں پڑھ سکتے ہیں؟

3۔قضا نماز ہم کون سے ٹائم پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

1۔فجر کی سنتیں رہ جائیں تو اسی دن طلوعِ آفتاب کے بعد (جب اشراق کا وقت داخل ہوجائے اس وقت سے لے کر) زوال سے پہلے پہلے پڑھ سکتے ہیں،  اس کے بعد نہیں۔

2۔ نوافل پڑھنے کا کوئی خاص وقت نہیں، البتہ صبح صادق کے بعد سے لے کر اشراق کا وقت داخل ہونے تک، عصر کی نماز کے بعد سے غروبِ آفتاب تک اور مکروہ اوقات ( سورج کے طلوع  ہونے کے وقت، عین زوال کے وقت، سورج کے غروب ہونے کے وقت ) میں نفل نہیں پڑھ سکتے۔

3۔ قضا  نماز  صرف تین ممنوعہ اوقات ( سورج کے طلوع  ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہونے تک، عین استواءِ شمس  کے وقت، (احتیاطاً  اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد بھی نماز نہیں پڑھنی چاہیے) مغرب سے پہلے سورج زرد پڑجانے سے لے کر غروب ہونے تک)  میں پڑھنا منع ہے، اس کے علاوہ ہر وقت پڑھ سکتے ہیں۔ البتہ فجر اور عصر کے بعد مسجد میں نہیں پڑھنی چاہیے؛ کیوں کہ اس میں اس بات کا اظہار ہے کہ میرے ذمہ قضا نماز باقی ہے، اور نماز قضا کرنا گناہ ہے، گویا مسجد میں یا سب کے سامنے قضا پڑھنے کی صورت میں نماز قضا کرنے کے گناہ کا اظہار ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57):
"(ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل.

(قوله: ولا يقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لا يقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلا تقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لا يقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده كما ذكره في الكافي إسماعيل". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200145

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں