بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صبح صادق کے تحقق میں جمہور کے قول ١٨ درجہ زیر افق پر عمل کیا جائے


سوال

صبح صادق میں جو 15 اور 18 ڈگری کا جو اختلاف ہے تو کیا اس میں 15 ڈگری پر روزہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

اہلِ  علم کا اتفاق ہے کہ فجر کا وقت صبحِ  صادق کے تحقق کے ساتھ ہوتا ہے اور صبحِ  صادق اس سفیدی کو کہا جاتا ہے جو مشرق کی جانب، سورج نکلنے سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پہلے آسمان کے کنارے پر چوڑائی میں یعنی شمالاً و جنوباً دکھائی دیتی ہے، اور جلد ہی پورے آسمان پر پھیل جائے، اس سے فجر کا وقت شروع ہوتا ہے، اور رزوہ رکھنے والوں پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے، اور اس گھڑی کے ساتھ ہی نوافل ادا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔  صبح صادق سے پہلے ایک اور سفیدی آسمان کے درمیان میں ایک ستون کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، اسے صبحِ  کاذب کہا جاتا ہے، اس روشنی کے ظاہر ہونے پر نہ فجر کا وقت داخل ہوتا ہے اور نہ روزہ رکھنے کا ارادہ کرنے والوں پر کھانا پینا حرام ہوتا ہے اور نہ ہی نوافل ادا کرنا ممنوع ہوتا ہے۔

  جیساکہ تنوير الأبصار مع الدر و الرد میں ہے:

"(مِنْ) أَوَّلِ (طُلُوعِ الْفَجْرِ الثَّانِي) وَهُوَ الْبَيَاضُ الْمُنْتَشِرُ الْمُسْتَطِيرُ لَا الْمُسْتَطِيلُ (إلَى) قُبَيْلِ (طُلُوعِ ذُكَاءَ) بِالضَّمِّ غَيْرُ مُنْصَرِفٍ اسْمُ الشَّمْسِ (قَوْلُهُ: وَهُوَ الْبَيَاضُ إلَخْ) لِحَدِيثِ مُسْلِمٍ وَالتِّرْمِذِيِّ وَاللَّفْظُ لَهُ «لَا يَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سُحُورِكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ وَلَا الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيلُ وَلَكِنْ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيرُ» " فَالْمُعْتَبَرُ الْفَجْرُ الصَّادِقُ وَهُوَ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيرُ فِي الْأُفُقِ: أَيْ الَّذِي يَنْتَشِرُ ضَوْءُهُ فِي أَطْرَافِ السَّمَاءِ لَا الْكَاذِبُ وَهُوَ الْمُسْتَطِيلُ الَّذِي يَبْدُو طَوِيلًا فِي السَّمَاءِ كَذَنَبِ السِّرْحَانِ أَيْ الذِّئْبِ ثُمَّ يَعْقُبُهُ ظُلْمَةٌ". ( ١/ ٣٥٩)

البتہ اہلِ علم کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا صبح صادق سورج کے ١٨ درجہ زیر افق ہونے پر ہوتا ہے یا ١٥ درجہ زیر افق ہونے پر ہوتا ہے؟ جمہور  محققین علماءِ  کرام بالخصوص پاکستان کے پائے کے علماءِ کرام جن میں سرِ  فہرست محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ و دیگر کی رائے یہ تھی کہ صبحِ  صادق کا وقت ١٨درجہ زیرِ  افق کے مطابق ہے،  جب کہ دوسری طرف مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی کہ صبح صادق کے وقت سورج ١٥ درجہ زیر افق ہوتا ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب لکھتے ہیں: ’’١٣٦٨ ہجری اور ١٩٤٨ عیسوی میں جب احقر پاکستان میں کراچی آکر مقیم ہوا تو یہاں کی عام مساجد وغیرہ میں اوقات کی ایک جنتری طبع کردہ حضرت حاجی وجیہ الدین صاحب مہاجر مدنی رحمہ اللہ آویزں دیکھی اور بہت سے قابلِ اعتماد حضرات سے معلوم ہوا کہ انہوں نے جنتری کے طلوع و غروب کو مختلف مقامات پر مختلف زمانوں میں جانچا ہے اور صحیح پایا ہے، خود بھی جب کبھی جانچنے کا موقع ملا تو اس کے طلوع و غروب کو صحیح پایا، اس لیے  دوسرے اوقات کے معاملے میں بھی اس پر اعتماد کیا گیا۔ اب سے چند سال پہلے اپنے احباب میں سے بعض اہلِ علم نے کچھ نئی تحقیق کرکے یہ قرار دیا کہ اس جنتری میں جو وقت صبحِ صادق کا دیا گیا ہے وہ درحقیقت صبحِ کاذب کا وقت ہے، اور اس پر جدید و قدیم کے کچھ اہلِ فن کے اقوال بھی پیش کیے، چوں کہ یہ احتمال غالب تھا کہ اس نئے اہلِ  فن نے صبحِ کاذب اور صبحِ صادق میں فرق نہ کرکے کاذب کو ہی صبحِ صادق کہہ دیا ہو، اس لیے مجھے بھی صبحِ صادق کے معاملے میں تردد ہوگیا،  اسی بنا پر ہر رمضان میں نقشہ اوقات کے ساتھ یہ نوٹ شائع کرنا شروع کیا کہ سحری کا کھانا تو قدیم جنتری کے وقت پر ختم کردیا جائے،  مگر صبح کی نماز اس کے بعد پندر بیس منٹ انتظار کے بعد پڑھی جائے۔ سالِ رواں میں بعض اہلِ فن حضرات کے ساتھ بحث و تمحیص اور جدید فلکیات کی بعض کتابوں کی مراجعت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جدید ماہرینِ فلکیات نے خود صبحِ کاذب کو الگ کرکے بیان کیا ہے اور وہ درحقیقت رات کا حصہ ہے، اس کے بعد جو صبحِ صادق ہوتی ہے اسی کو انہوں نے صبح کہا ہے، اس نئی تحقیق اور بحث سے میرا تردد رفع ہوگیا اور میں قدیم جنتری کے اوقات کو حسابی اعتبار سے صحیح سمجھتا ہوں، البتہ یہ حسابات خود یقینی نہیں ہوتے، نماز، روزہ ہر معاملے میں احتیاط ہی کا پہلو اختیار کرنا چاہیے‘‘۔ (نوادر الفقہ، ٢ / ٩٧، ط: دار العلوم کراچی)

محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

’’کچھ عرصے سے کراچی اور چند شہروں میں نمازِ فجر اور سحری کے اوقات کے مختلف نقشے سامنے آئے، جس کی وجہ سے عوام خاصے پریشانی میں مبتلا ہوگئے کہ کس پر عمل کریں، اور کس کو صحیح سمجھیں، اس وقت چوں کہ پوری تحقیق کا موقع نہیں مل سکا تھا، اس لیے احتیاطاً یہی فتویٰ دیا گیا کہ نماز کے لیے ان نقشوں پر عمل کیا جائے جن میں صبحِ صادق کاوقت بعد تک ہے اور انتہائے سحر کا وقت ان سے لیا جائے جن میں وقت پہلے ختم ہوتاہے، لیکن بعد میں بعض مخلصین کی کوشش سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان سے یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچی کہ تمام نقشوں میں وہی سابق کراچی کا نقشہ جس کو مرحوم حاجی وجیہ الدین صاحب خان بہادر نے مرتب کروایاتھا اور چھاپا تھا وہ بالکل صحیح ہے، ہاں جس کا جی چاہے نماز دیر سے پڑھے تاکہ اس کو بھی یقین ہوجائے کہ وقت ہوگیا ہے، تو اور اچھا ہے، دین کی بات میں ضد کی حاجت نہیں۔ جو بات صحیح ہو اس کو ماننا اور غلط بات سے رجوع کرنا یہ عین دین کی بات ہے، اللہ تعالیٰ سب کو صحیح سمجھ اور صحیح عمل کی توفیق عطا فرمائے! محمد یوسف بنوری۔ 2 رمضان المبارک 1392ھ‘‘.

سورج کے ١٨ درجہ زیرِ  افق پر صبح صادق ہونے والے جمہور کے قول کے مطابق مجموعی وقت گھنٹوں اور منٹوں کے اعتبار سے طلوعِ آفتاب سے قبل ایک گھنٹہ بیس منٹ سے ایک گھنٹہ اڑتیس منٹ تک ہوتا ہے، جو مختلف موسم و ایام میں بدلتا رہتا ہے، ہر وقت یک ساں نہیں رہتا، جب کہ مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے اس کا کم از کم وقت ٥٧ منٹ بتلایا ہے، دوسرے موسم میں اس سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔

ان دونوں اقوال میں سے ١٨ درجہ زیرِ افق والا قول معتبر، راجح، اصح و مفتی بہ و معمول بہ ہے، جب کہ مفتی رشید احمد رحمہ اللہ کی تحقیق سے جمہور نے اتفاق نہیں کیا ہے، بلکہ اسے ان کا تفرد قرر دیا ہے، نیز مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے بھی بعد میں نماز اور روزے میں ١٨ درجہ والے قول کی رعایت کرنے کا ارشاد فرمایا ہے۔

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ نے بھی ١٨ درجہ زیر افق والے قول کو اختیار فرمایا ہے، جیساکہ کفایت المفتی میں ہے:

’’یہ وقفہ ہمیشہ یک ساں نہیں رہتا ، ماہ بماہ یعنی تھوڑے تھوڑے دن میں اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، مگر یہ وقفہ ایک گھنٹہ اڑتیس منٹ سے کبھی زیادہ نہیں ہوتا اور ایک گھنٹہ اکیس منٹ سے کبھی کم نہیں ہوتا، جون کے مہینے میں وہ سب سے زائد یعنی ایک گھنٹہ اڑتیس منٹ کا ہوتا ہے، اور ستمبر میں سب سے کم یعنی ایک گھنٹہ اکیس منٹ کا ہوتا ہے‘‘۔ ( کتاب الصلاۃ، ٣ / ٧٢، ط: دار الاشاعت)

حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ اور مفتی محمد عبدالسلام چاٹ گامی دامت برکاتہم العالیہ سمیت جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے تمام اکابر مفتیانِ کرام کے نزدیک جمہور کا قول راجح ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں صبح صادق کے حوالہ سے جمہور کے قول ( ١٨ درجہ زیر افق) والے قول کے مطابق سحری ختم کرنی چاہیے، اس وقت کے بعد ہرگز کھانا پینا جاری نہیں رکھنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں