بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحبِ نصاب ہونے کی تاریخ یاد نہ ہونا / پیشگی تنخواہ مل جانے پر زکاۃ کا حکم


سوال

ایک بندے کے پاس پیسے ہیں تین، چار لاکھ، لیکن اسے صحیح پتا نہیں چل رہا کہ اس پر سال کب پورا ہورہا ہے تاکہ زکاۃ کا پتا چلے کہ کب اس پر ادائیگی فرض ہونی ہے۔

اور یہ بھی پوچھنا ہے کہ میں آن لائن پڑھاتا ہوں، ہمیں کچھ فیملیوں کی فیس ایڈوانس مل جاتی ہےاور کچھ کی فیس تین تین ماہ بعد ملتی ہے، کیا سال پورا ہونے پر جو ہمارے پاس اگلے مہینوں کی ایڈوانس رقم ہے، (جب کہ یہ رقم اس وقت ہمارے لیے حلال ہوگی جب ان مہینوں کی بچوں کو تعلیم دے دیں گے، جن کی ایڈوانس فیس ملی ہے) تو کیا اس صورت میں یعنی جب کہ ہمارے پاس اپنی رقم چار لاکھ ہے اور پچاس ہزار ایڈوانس فیس ہے،تو کیا اب زکاۃ چار لاکھ کی ادا کرنی ہوگی یا ساڑھے چار لاکھ کی ادا کرنی ہوگی؟

جواب

1۔۔ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص  جس وقت نصاب  (ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر) رقم کا مالک بن گیا تھا اس وقت سے اس کی زکاۃ کا سال شروع ہوگیا تھا، اور قمری سال مکمل ہونے کے دن اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد جو قابلِ زکاۃ اثاثے (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) ہیں اس کا ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہے۔ اگر  اسے یہ یاد نہ ہو کہ وہ کب صاحب نصاب بنا تھا تو اس کو چاہیے کہ وہ غالب گمان اور قرائن سے اندازا  لگاکر  قمری مہینہ کے حساب سے ایک تاریخ متعین کرلے، پھر ہر سال اسی تاریخ کو اپنی زکاۃ کا حساب کرے۔ (زکاۃ کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا ص 122، احسن الفتاوی 4/265)

2۔۔  زکاۃ کاسال مکمل ہونے کی تاریخ پر آپ کے پاس واجب الادا اخراجات منہا کرنے کے بعد  جتنی قابلِ زکاۃ مالیت ہو اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہے، جو فیس ابھی ملی نہیں ہے اس کی زکاۃ لازم نہیں ہے، اور جو  رقم وصول ہوچکی ہے  چوں کہ وہ آپ کی ملکیت میں آگئی ہے؛ اس لیے زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر اگراس میں سے کچھ بچی ہوئی ہوتو اس کی زکاۃ بھی لازم ہوگی۔

 

فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 165):

"وأما زكاة الأجرة المعجلة عن سنين في الإجارة الطويلة التي يفعلها بعض الناس عقودًا ويشترطون الخيار ثلاثة أيام في رأس كل شهر فتجب على الآجر؛ لأنه ملكها بالقبض".

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره؛ لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها". (7 / 300، کتاب الاجارۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں