ایک شخص کے دو گھر ہیں: ایک میں اس کی رہائش ہے اور ایک گھر کرایہ پر دیا ہے، اس کرایہ کی رقم میں اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا، ساری رقم خرچ ہوجاتی ہے تو کیا ایسے شخص پر قربانی واجب ہے؟ اور اگر وہ محتاج ہو تو کیا زکاۃ لے سکتا ہے؟
مذکورہ صورت میں اگر اس شخص کے پاس کرائے کی رقم کے علاوہ مزید ضرورت سے زائد اور نصابِ زکاۃ کے بقدر رقم یا سونا چاندی یا سامان وغیرہ نہیں تو صاحبِ نصاب نہ ہونے کی بنا پر اس شخص پر قربانی واجب نہیں، البتہ یہ شخص زکاۃ نہیں لے سکتا .
"(قَوْلُهُ: وَالْيَسَارُ إلَخْ) بِأَنْ مَلَك مِائَتَيْ دِرْهَمٍ أَوْ عَرْضًا يُسَاوِيهَا غَيْرَ مَسْكَنِهِ وَثِيَابِ اللُّبْسِ أَوْ مَتَاعٍ يَحْتَاجُهُ إلَى أَنْ يَذْبَحَ الْأُضْحِيَّةَ، وَلَوْ لَهُ عَقَارٌ يَسْتَغِلُّهُ فَقِيلَ: تَلْزَمُ لَوْ قِيمَتُهُ نِصَابًا، وَقِيلَ: لَوْ يَدْخُلُ مِنْهُ قُوتُ سَنَةٍ تَلْزَمُ، وَقِيلَ: قُوتُ شَهْرٍ، فَمَتَى فَضَلَ نِصَابٌ تَلْزَمُهُ. وَلَوْ الْعَقَارُ وَقْفًا، فَإِنْ وَجَبَ لَهُ فِي أَيَّامِهَا نِصَابٌ تَلْزَمُ، وَصَاحِبُ الثِّيَابِ الْأَرْبَعَةِ لَوْ سَاوَى الرَّابِعُ نِصَابًا غِنًى وَثَلَاثَةً فَلَا، لِأَنَّ أَحَدَهَا لِلْبِذْلَةِ وَالْآخَرُ لِلْمِهْنَةِ وَالثَّالِثُ لِلْجَمْعِ وَالْوَفْدِ وَالْأَعْيَادِ، وَالْمَرْأَةُ مُوسِرَةٌ بِالْمُعَجَّلِ لَوْ الزَّوْجُ مَلِيًّا وَبِالْمُؤَجَّلِ لَا، وَبِدَارٍ تَسْكُنُهَا مَعَ الزَّوْجِ إنْ قَدَرَ عَلَى الْإِسْكَانِ.
لَهُ مَالٌ كَثِيرٌ غَائِبٌ فِي يَدِ مُضَارِبِهِ أَوْ شَرِيكِهِ وَمَعَهُ مِنْ الْحَجَرَيْنِ أَوْ مَتَاعِ الْبَيْتِ مَا يُضَحِّي بِهِ تَلْزَمُ، وَتَمَامُ الْفُرُوعِ فِي الْبَزَّازِيَّةِ وَغَيْرِهَا". [رد المحتار: ٦/ ٣١٢]فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200923
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن