بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیعہ کا عقیدہ امامت اور اہل سنت کی تقلید ائمہ میں فرق


سوال

میرا ایک دوست شیعہ ہے وہ کہتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے بعد تم کس کی تقلید کرتے ہو کس کو امام مانتے ہو؟جب کہ وہ کہتاہے کہ ہمارے بارہ امام ہیں ۔ یہ اماموں کا مسئلہ کیاہے؟

اور وہ کہتاہے کہ کیایزید بھی تمہاراامام ہے یا تھا؟

جواب

شیعوں کے عقیدہ امامت اور اہل سنت کا ائمہ اربعہ (چارامام ،امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ)میں سے کسی ایک کی تقلید کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔

شیعوں کے نزدیک عقیدہ امامت کامطلب یہ ہے کہ جیسے انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃوالسلام’’ مبعوث من اﷲ‘‘(اﷲتعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے)ہوتے ہیں، ایسے ہی’’ ائمہ معصومین‘‘ بھی ،ان پر وحی نازل ہوتی ہے اور ان کو حسب منشاء قرآن پاک میں تبدیلی کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔شیعہ مذہب میں عقیدہ امامت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، بلکہ اہل تشیع کے نزدیک عقیدہ امامت،توحیدورسالت کے عقیدہ پر بھی فوقیت رکھتاہے۔بارہ ائمہ کو ماننے والااہل تشیع کا یہ فرقہ ''امامیہ''اور اثناعشری کہلاتاہے۔ملحوظ رہے کہ مذہب شیعہ کی رو سے اس عقیدہ کے منکر ، توحید، رسالت اور آخرت کے منکرین کی طرح غیرمومن، غیر ناجی اور جہنمی ہیں۔ان لوگوں کے درمیان بھی بعد میں ائمہ کی تعیین کے سلسلہ میں اختلاف ہوا، اور کئی گروہوں میں بٹ گئے، جس کی تفصیل اس موضوع سے متعلق تفصیلی کتب میں موجود ہے۔لہذا شیعوں کا ائمہ کو تسلیم کرنا ایک بنیادی عقیدہ کی حیثیت سے ہے ۔اور اس کے منکرکو وہ مومن یاجنتی نہیں سمجھتے۔

لیکن یہ یادرہے کہ شیعہ حضرات جن بارہ ائمہ کی جانب اپنی نسبت کرتے ہیں وہ حضرات مثلاً حضرت علی، حضرت حسن ، حضرت حسین رضی اللہ عنہم، حضرت زین العابدین رحمہ اللہ ، وغیرہ بذات خود نہایت متقی ،پرہیزگار اور خاندان نبوت میں سے تھے، ان کی طرف شیعوں نے جو خرافات اور نامناسب باتیں منسوب کی ہیں اور اپنی کتب میں درج کی ہیں وہ سب جھوٹ اور افتراء ہے۔ان حضرات کی طرف ان کی نسبت من گھڑت ہے۔اہل سنت ان تمام حضرات کی تعظیم کرتے ہیں ،اور انہیں ان خرافات سے پاک سمجھتے ہیں جو اہل تشیع نے اپنی کتب میں ان کی طرف منسوب کی ہیں۔ (فتاوی بینات 1/188-ایرانی انقلاب،ص:29)

جب کہ اس کے مقابل  اہل سنت  کا موقف یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر مکمل طور پر بسہولت عمل کرنے کے لیے چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلید  و پیروی کرنا شرعاً ضروری ہے، اس لیے کہ تکوینی طور پر اللہ رب العزت نے دین فہمی و نصوصِ شرعیہ سے استنباطِ مسائل کا جو ملکہ ان حضرات کو عطا کیا تھا وہ ان کے بعد  والوں میں سے کسی کو حاصل نہ ہوا، اور ان حضرات کے مذاہب و مسالک کو جو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی وہ کسی اور  مجتہد عالم کو حاصل نہ ہوئی،  یہی وجہ ہے کہ ان ائمہ فقہ کے مقلدین  میں بڑے بڑے محدثین کے نام ملتے ہیں جو احادیث سے مسائل استنباط کرنے میں اور ان پر  عمل کرنے میں ان چار ائمہ فقہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرتے تھے اور  ان حضرات فقہاءِ کرام کے مقلدین  ساری دنیا میں موجود ہیں اور تعلیمِ دین اور دین پر صحیح طریقہ پر عمل کرنے میں مصروف ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اہلِ سنت حضرات   اپنے ائمہ کو نہ نبی کا درجہ دیتے ہیں اور  نہ غیرمقلد کو  دائرہٴ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں،البتہ نفسانیت اور اتباع ہویٰ سے محفوظ رہنے کے لیے ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک متعین امام کی تقلید کو اجتہادی مسائل میں واجب کہتے ہیں۔

امام ابوحنیفہ ؒ کے بعد مزید کسی امام کی تقلید کی حاجت اس لیے نہیں کہ چوتھی صدی ہجری میں جب مذاہبِ اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) کی کتابیں مرتب اور مدون ہوکر تمام دنیا میں پھیل گئیں اور ان مذاہب پر عمل کرنا آسان ہوگیا اور ان کے علاوہ دیگر مجتہدینِ کرام کے مذاہب کے آثار رفتہ رفتہ مفقود ہوتے چلے گئے  اور اب کسی نئے اجتہاد کی ضرورت نہ رہی تو انہی چاروں مذاہب کے اندر تقلید شخصی کا انحصار ہوکر رہ گیا۔اس لیے مسائل پر عمل کے لیے ان ائمہ اربعہ کے علاوہ مزید کسی امام کی حاجت نہیں رہی۔

آپ مزید تفصیل کے لیے ''اختلاف امت اورصراط مستقیم ''،''ماہنامہ بینات''کاخصوصی نمبربسلسلہ اثناعشریہ کا حکم،مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہ کی کتاب’’ایرانی انقلاب‘‘اور شاہ عبد العزیزؒ کی کتاب’’ تحفہ اثناء عشریہ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔

یزید کو اہل سنت ہرگز اپناامام نہیں کہتے ، بلکہ یزید کے متعلق اہلِ سنت کا موقف یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق پر تھے، یزید حق پر نہ تھا۔

یادرکھیں کہ شیعہ سے معاملات   کرنا جائز ہے، البتہ ان سے دوستانہ رکھنا اور ان کے تہواروں میں شرکت ناجائز ہے،اور اایک مسلمان کے لیے عقائد بگڑنے کا سبب بن سکتاہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں