میں نے ایک شیعہ کے ساتھ ایک سنی لڑکی کا نکاح لاعلمی میں پڑھا دیا( اس لڑکی کے والد صاحب بھائی سنی ہیں، میرے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے انہوں نے مجھے اطلاع نہیں کی) اب میرے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟
اگر کوئی شیعہ قرآنِ مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیلِ امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتاہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتاہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتاہو، یا بارہ اماموں کی امامت من جانب اللہ مان کر ان کو معصوم مانتاہو تو ایسا شیعہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگا، اور ایسے شیعہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح جائز نہیں ہوگا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔
اور اگر کسی شیعہ لڑکے کے عقائد کفریہ نہ ہوں، تو سنی لڑکی کا نکاح اس سے جائز تو ہوگا، لیکن صحیح العقیدہ دین دار گھرانے کی سنی لڑکی کا نکاح اس سے نہیں کرانا چاہیے، کیوں کہ اس صورت میں اس کے عقائد کے فساد کا قوی اندیشہ ہے۔
"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر ؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة". (ردالمحتار : ٣ / ٤٦ سعيد)
لہذا اگر لڑکا پہلی قسم کا ہے تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا آپ پر لازم ہے کہ آپ لڑکی کے گھر والوں کو بتائیں؛ تاکہ وہ خلاصٰی کی کوئی صورت اختیار کریں.آپ نے نکاح چوں کہ لاعلمی میں پڑھایا ہے، اس لیے کفر وفسق تو لازم نہیں آئے گا، البتہ بلا تحقیق ایسا نکاح پڑھانے پر استغفار کریں آئندہ مکمل احتیاط کریں۔
اگر لڑکا دوسری قسم میں سے ہے تو نکاح تو منعقد ہو گیا لیکن آپ اس صورت میں لڑکی والوں کو بتائیں تاکہ وہ لڑکی اور اس کی اولاد کے عقائد کے بچانے کی فکر کریں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200568
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن