بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شیخِ فانی کے لیے فدیہ کا حکم


سوال

 ایک خاتون عرصہ نو سال سے صاحب فراش تھی،   علماء اور ڈاکٹرز نے روزوں سے روکے رکھا تھا، اگر ان کا بشرط صحت قضا کا ارادہ بھی تھا،  لیکن گزشتہ دنوں  انتقال کرگئیں،   اب ان کے ذمے یہ 270 روزوں کا فدیہ بنتاہے یا نہیں؟

جواب

اگر مرحومہ کی بیماری کی نوعیت ایسی تھی کہ عام طور پر اس سے صحت یابی نصیب نہیں ہوتی تو مرحومہ پر اپنی زندگی ہی میں ان روزوں کا فدیہ ادا کرنا لازم تھا لیکن جب مرحومہ نے خود ان روزوں کا فدیہ ادا نہیں کیا اور قضا کا موقع بھی نہیں ملا تو ان روزوں کا فدیہ مرحومہ کے ذمہ باقی رہا، لیکن چونکہ انہوں نے اس کی وصیت نہیں کی اس  لیے ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں،  البتہ اگر کوئی وارث اپنی رضا و خوشی سے فدیہ ادا کر دے تو ثواب کا کام ہے۔

اور  اگر ان کی بیماری ایسی تھی کہ عام طور پر اس سے صحت یابی نصیب ہو جاتی ہے تو اگر ان کو صحت یابی نصیب نہیں ہوئی اور روزے قضاء کرنے کا موقع ہی نہ ملا تو  ایسی صورت میں مرحومہ پر ان روزوں کی قضاء یا اس کا فدیہ لازم ہی نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 427):

(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 423):

' (فإن ماتوا فيه) أي في ذلك العذر (فلا تجب) عليهم (الوصية بالفدية) لعدم إدراكهم عدة من أيام أخر (ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت) الوصية بقدر إدراكهم عدة من أيام أخر، وأما من أفطر عمداً فوجوبها عليه بالأولى، (وفدى) لزوماً (عنه) أي عن الميت (وليه) الذي يتصرف في ماله (كالفطرة) قدرا (بعد قدرته عليه) أي على قضاء الصوم (وفوته) أي فوت القضاء بالموت، فلو فاته عشرة أيام فقدر على خمسة فداها، فقط (بوصيته من الثلث) متعلق بفدى، وهذا لو له وارث، وإلا فمن الكل، قهستاني (وإن) لم يوص  و (تبرع وليه به جاز) إن شاء الله، ويكون الثواب للولي، اختيار۔

 (قوله: فإن ماتوا إلخ) ظاهر في رجوعه إلى جميع ما تقدم حتى الحامل والمرضع ، وقضية صنيع غيره من المتون اختصاص هذا الحكم بالمريض والمسافر. وقال في البحر: ولم أر من صرح بأن الحامل والمرضع كذلك، لكن يتناولهما عموم قوله في البدائع من شرائط القضاء القدرة على القضاء، فعلى هذا إذا زال الخوف أياماً لزمهما بقدره، بل ولا خصوصية فإن كل من أفطر بعذر ومات قبل زواله لا يلزمه شيء، فيدخل المكره والأقسام الثمانية. اهـ.ملخصاً من الرحمتي (قوله: أي في ذلك العذر) على تقدير مضاف أي في مدته (قوله: لعدم إدراكهم إلخ) أي فلم يلزمهم القضاء، ووجوب الوصية فرع لزوم القضاء وإنما تجب الوصية إذا كان له مال في شرح الملتقى، ط (قوله: بقدر إدراكهم إلخ) ينبغي أن يستثنى الأيام المنهية؛ لما سيأتي أن أداء الواجب لم يجز فيها، قهستاني. وقديقال: لا حاجة إلى الاستثناء؛ لأنه ليس بقادر فيها على القضاء شرعاً بل هو أعجز فيها من أيام السفر والمرض؛ لأنه لو صام فيها أجزأه، ولو صام في الأيام المنهية لم يجزه، رحمتي'۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200537

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں