بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیخ فانی کی نماز کا حکم/ شوال میں عمرہ کرنے سے کیا حج فرض ہوجاتا ہے؟


سوال

1- کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی آدمی عمر کےآخری حصہ میں ہونے کی وجہ سے شیخ ِفانی کے حکم میں بھی ہے اور ساتھ ساتھ ایسا مریض (مثلاً فالج یا کبھی بے ہوشی اورکبھی افاقہ کی حالت میں رہنا،یا قومہ کی حالت)بھی ہے جس میں وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے یعنی قضائے حاجت وغیرہ کے لیے بھی دوسروں کی ضرورت ہوتی ہےاور اسی مرض میں اس کا انتقال ہوجاتا ہے ، تو پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ شیخِ فانی کی طرف سے تو روزہ کا فدیہ دیا جاسکتا ہے، مگر اگر کوئی مریض اسی حالتِ مرض میں وفات پاجائے تو اس کے ذمہ قضا وغیرہ نہیں رہتی جیسے اگر کوئی مسافر حالتِ  سفر میں ہی مرجائے تو اب جو لوگ بڑھاپے کی حالت میں ہوتے ہیں اور سالہا سال بیمار بھی رہتے ہے، ان میں کچھ تو ہوش میں ہوتے ہیں آنکھیں بھی کھلی ہوتی ہے مگر دماغی حالت درست نہ ہونے کی وجہ سے کسی چیز کا صحیح سے ادراک نہیں ہوتا ،چہ جائے کہ وہ نمازیں پڑھ سکیں، اور کبھی مدہوشی کی حالت میں ہونے کی وجہ سے مستقل بیڈ ریسٹ ہوتے ہیں تو ہم ان کے بارے میں کیسے فیصلہ کریں گےکہ یہ شیخِ فانی ہے کہ ان کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دیا جائے یا اُس مریض کے حکم میں ہے جو حالتِ مرض میں ہی وفات پاجائے اور ان پر نماز اور فدیہ دونوں واجب نہیں؟

2- کیا اشہرِ حج میں عمرہ کرنا منع ہے؟ اگر کسی نے شوال میں عمرہ کرلیا تو کیا اس پر اُسی سال کا حج بھی واجب ہے؟ جب کہ سعودی حکومت کے قوانین کے مطابق پانچ سال سے پہلے دوبارہ حج نہیں کرسکتے۔

3- اور اگر کسی کا رواں سال حج کا ارادہ ہو اور وہ شوال میں عمرہ کرلے اور اسی سال حج کرے تو کیا اس پر حج کی قربانی کے علاوہ الگ سے دم واجب ہے؟ اس مسئلہ کی تفصیل مطلوب ہے۔

جواب

1۔ایسا  شخص جس کی عقل قائم اور ہوش وحواس بحال ہوں وہ نماز و رزے کا مکلف رہتا ہے، اگرچہ بیماری کی وجہ سے عبادات ادا نہ کرسکتا ہو، پس اگر ایسے شخص کو صحت نہیں ملی اور اسی مرض میں انتقال کرگیا ہو، اور اپنی نماز روزوں کے حوالہ سے وصیت کر گیا ہو اور مال بھی چھوڑا ہو تو ورثاء پر اس کی وصیت کو ایک تہائی ترکہ سے پوری کرنا ضروری ہوگا، اور اگر وصیت نہ کی ہو  البتہ مال چھوڑا ہو تو ورثاء پر اس کی نماز روزوں کے فدیہ کی ادائیگی اگرچہ لازم نہیں ہوگی، تاہم ادا کرنا میت کے ساتھ حسنِ سلوک کا باعث ہوگا، البتہ اگر نہ وصیت کی ہو اور نہ مال چھوڑا ہو تو اس صورت میں ورثاء پر فدیہ کی ادائیگی لازم تو نہ ہوگی، تاہم اگر وہ اپنی رضامندی سے ادا کرنا چاہیں تو میت پر احسان ہوگا۔

اگر عقل ہی قائم نہ ہو اور وہ نماز روزے کا فرض ہونا ہی نہ سمجھتا ہو تو اس پر نماز روزہ واجب ہے اور نہ ہی اس کی وصیت کرنا یا اس کی طرف سے فدیہ ادا کرنا لازم ہے۔

2۔ اشہر حج میں اگر کوئی عمرہ کرلیتا ہے تو اس پر حج اس صورت میں فرض ہوگا جب کہ اس نے پہلے حج نہ کیا ہو، اور اس سال حج کرنے کے اخراجات برداشت کرسکتا ہو، اور حکومت وقت کی جانب سے اسے حج کی اجازت بھی حاصل ہو، پس اگر کوئی فرض حج ادا کرچکا ہو، یا اس کے پاس حج کے اخراجات ادا کرنے کی رقم نہ ہو یا حکومت کی جانب سے اجازت نہ ہو، تو ان تمام صورتوں میں حج فرض نہیں ہوگا۔

 3- جو آفاقی شخص اشہرِ حج میں عمرہ کرے اسے چاہیے کہ وہ اس سال حج بھی  کرے، لیکن اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے وہ اسی سال حج نہ کرسکتاہو تو شوال میں صرف عمرہ کرنے کی اجازت ہے، ممنوع نہیں ہے، نیز اگر اشہرِ حج میں عمرہ کرنے کے بعد اسی سال حج ادا کیا یا نہیں کیا، بہر صورت اس وجہ سے اس پر دم لازم نہیں ہوگا. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں