بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شکار کے لیے حیلہ کا حکم


سوال

آج کل بعض شکاری شکار پکڑنے  کے لیے اس طرح حیلہ کرتے ہیں کہ کچھ مصنوعی جانور مثلاً بطخ وغیرہ بناتے ہیں اور پھر اس کو پانی میں چھوڑ دیتے ہیں، اس کے بعد دوسرے پرندے ان مصنوعی بطخوں کے پاس آتے ہیں تو  شکاری ان پرندوں کو شکار کرلیتے ہیں، کیا اس طرح پرندوں کو دھوکا  دے کر شکار کرنا شرعاً درست ہے؟ 

جواب

جانوروں یا پرندوں کے شکار کے لیے سوال میں مذکور نوعیت کا حیلہ کرنا جائز ہے،  بشرطیکہ ان جانوروں کو ایسے نہ بنایا جائے، جس سے جانور کی پوری طرح حکایت ہوتی ہو، ورنہ جان دار کی تصویرسازی کا گناہ ہوگا، البتہ مچھلی کے شکار کے لیے کسی زندہ جانور (مینڈک وغیرہ) کو کانٹے پر لگاکر شکارکرنا جائز نہیں۔ 

"عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:  أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا وَنَحْنُ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، فَسَعَى الْقَوْمُ فَلَغِبُوا، فَأَخَذْتُهَا فَجِئْتُ بِهَا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ فَذَبَحَهَا، فَبَعَثَ بِوَرِكَيْهَا - أَوْ قَالَ : بِفَخِذَيْهَا - إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبِلَهَا".(صحيح البخاري، رقم الحديث: ٥٥٣٥)

"وفي الحديث أيضاً جواز استثارة الصيد والغدو في طلبه، وأما ما أخرجه أبو داود والنسائي من حديث ابن عباس رفعه: "من اتبع الصيد غفل" فهو محمول على من واظب على ذلك حتى يشغله عن غيره من المصالح الدينية وغيرها. 
وفيه أن آخذ الصيد يملكه بأخذه ولايشاركه من استثاره معه". (فتح الباري) 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200854

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں