میں الحمدللہ بلوغت سے نماز کا پابند رہا ہوں، میری 29 سال عمر ہوگئی، اب درمیان میں اگر کوئی نماز رہ گئی ہو اور قضا نہیں کی اور مجھے یاد بھی نہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا میں احتیاطاً اندازے سے کچھ نمازیں پڑھ سکتا ہوں؟ نیز جن نمازوں کے بارے میں شک ہو کہ درست ہوئی یا نہیں ان کا احتیاطاً اعادہ کرسکتے ہیں؟
آپ اس کا اندازہ لگائیں کہ کب آپ کی نماز قضا ہوئی اور کتنی؟ پھر جو غالب گمان ہو اس کے مطابق ان کی قضا کرلیں۔ نیز جن نمازوں کے بارے میں یہ یقین ہو کہ کسی غلطی کی وجہ سے وہ نماز غلط ہوئی اور اس غلطی کی وجہ سے اس کا دہرانا بھی شرعاً واجب ہو تو ان نمازوں کو دہرائیں۔ محض شک کی بنیادپر نمازیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ استغفار کی کثرت اور سنن و نوافل کی ادائیگی کرتے ہیں، فرائض میں جو کوتاہی ہوگی وہ استغفار سے معاف اور نوافل سے پوری کردی جائے گی۔ (کما ورد فی الحدیث) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200409
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن