بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے رویہ سے تنگ آکر عدالت سے حاصل کردہ خلع کا حکم


سوال

میری بہن سسرال اور شوہر کے ناروا سلوک  اور مارپیٹ کی وجہ سے والدہ کے گھر آگئی ہے، اس سے پہلے مزید دو بار اس کے سسرال والوں نے جھگڑا کرا تھا، اور اس کی ساس نے بہن پر اور اس کی نند نے میری والدہ پر ہاتھ اٹھایا تھا، گھر بسانے کی نیت سے سمجھوتہ کرکے ہم نے بات بنائی، کچھ عرصہ بعد دوبارہ وہی صورتِ حال ہوئی اور سسرال والوں نے دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا کروایا، اس جھگڑے میں میرے بہنوئی نے میری بہن پر ہاتھ اٹھایا، جس پر وہ اپنی پندرہ دن کی بچی کو لے کر والدہ کے گھر آگئی، دو ہفتے بعد گھر کے بڑے بات کرنے گئے، لیکن کوئی حل نہیں نکلا، معاملہ یوں ہی چلتا رہا اور ساتھ میں طلاق کی مستقل دھمکیاں، وہ بات بات پر طلاق کی دھمکی دیتا ہے،  چار ماہ بعد مجبوراً  خلع کا کیس فائل کیا،  کیس پر بھی بہنوئی شروع میں کسی پیشی پر نہیں آیا، اور کیس لیٹ ہوتا رہا، ایکpre-trial   پر وہ آیا، جس پر جج نے دونوں کو آپس میں بات کرنے کا کہا، معاملہ حل کرو، اور اگلی تاریخ دے دی، اس کیس کو تقریباً چھ مہینے ہوگئے ہیں، اگلی تاریخ کو وہ پھر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی وجہ بتائی، جج نے اپنے طور پر فیصلہ کرکے خلع کی ڈگری جاری کردی، اس معاملہ کو تقریباً ایک سال ہوگیا ہے، اس پورے عرصہ میں اس نے کبھی اپنی بیٹی کی خبر نہیں لی اور نہ ہی کبھی اس کا خرچہ دیا، شرعی اعتبار سے خلع ہوئی یا نہیں ؟

جواب

اگر عدالت نے خلع  کی بنیاد پر فیصلہ دیا ہے تو چوں کہ خلع   دیگر مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی  ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا۔ لہذا اگر شوہر نے اس خلع کے فیصلہ پر رضامندی نہیں دی ہے تو  اس سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔

’’بدائع الصنائع ‘‘  میں ہے:

"وأما ركنه: فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلاتقع  الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول".  (3 / 145، فصل فی  حکم الخلع، ط ؛سعید) 

البتہ بعض مخصوص حالات میں قاضی  شرعی کو یہ  اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی  میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ   نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں  جو  نکاح کے مصالح  اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ  عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلاً بیوی کا نان ونفقہ  اور حقوقِ  زوجیت ادا کرنا وغیرہ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز ہوتو عورت کو طلاق دے دے، ایسی صورت میں اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے۔

         لہذا اگر شوہر اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لاتا اور اپنا گھر بسانے پر تیار نہیں ہوتا،  نان ونفقہ  دینے پر راضی نہیں ہوتا  ،  تو ایسی صورت میں مذکورہ عورت  کو چاہیے کہ خاندان کے معزز لوگوں کے سامنے یا محلے کی پنچایت کے سامنے اس معاملہ کو رکھے، اور ان کے تعاون سے اس مسئلہ کا حل نکالا جائے،اور اگر شوہر  پھر بھی اپنی ضد پر اڑا رہے، اور اپنے رویہ میں  تبدیلی نہیں لائے تو مذکورہ عورت  اپنے  شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرکے کسی طرح طلاق حاصل کرلے، اور اگر وہ طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو    باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرے،  اور خلع میں شوہر کے لیے بدلِ خلع یعنی خلع کے عوض مال لینا جائز نہ ہوگا،  تاہم لینے کے باوجود خلع ہوجائے گا اور نکاح ختم ہوجائے گا۔

لیکن اگر شوہر نہ طلاق دے اور نہ ہی خلع  دینے پر رضامند ہو اور بیوی کے ساتھ نباہ پر اور اس کو نان ونفقہ دینے پر بھی تیار نہ ہو تو   سخت مجبوری کی حالت میں  عدالت سے تنسیخِ نکاح کرایا جاسکتا ہے،  جس کی صورت یہ ہے کہ  عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کے سامنے پیش کرے، اور متعلقہ جج  شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ  معاملہ کی  پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ  صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر  باوجود  وسعت کے  خرچہ نہیں دیتا تو اس کے  شوہر سے کہا جائے کہ  عورت کے حقوق ادا کرو یا  طلاق دو ،   ورنہ ہم تفریق کردیں گے،  اس کے بعد بھی اگر  وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو عورت پر طلاق واقع کردے۔(ماخوذ از حیلہ ناجزہ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں