بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی اجازت کے بغیر والد کے ساتھ عمرہ پر جانا


سوال

 شوہر کی غیر موجودگی میں یعنی شوہر ملک سے باہر ہو اور بیوی کو عمرہ کی سعادت نصیبب ہو  اور محرم یعنی باپ کے ساتھ  جانے کا بندوست ہو تو ایسے میں اگر شوہر اجازت نہیں دے تو نفلی عبادت یعنی عمرہ کی سعادت کے لیے بیوی جاسکتی ہے جب کہ اس سے شوہر کے کسی حقوق میں خلل بھی نہیں ہو رہا اور بیوی بھی میکے میں رہ رہی ہے?

جواب

واضح رہے کہ عورت کے لیے نفلی روزوں کے علاوہ باقی   نفلی عبادات ( مثلاً نفل نماز، تلاوت وغیرہ) کرنے کے لیے  شرعاً شوہر کی اجازت لازمی تو نہیں ہے، لیکن اگر نفلی عبادت کی وجہ سے شوہر  کی خدمت میں خلل واقع ہورہا ہو اور اس وجہ سے شوہر وقتی طور پر نفلی عبادت سے منع کرے تو ایسے موقع پر بیوی کو شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی عبادت نہیں کرنی چاہیے، لیکن اگر اس کے نفلی عبادت کرنے سے شوہر کی خدمت میں خلل واقع نہ ہو تو اس صورت میں پھر منع نہیں ؛ لہٰذا بصورتِ  مسئولہ چوں کہ شوہر  کی خدمت میں خلل واقع ہونے کا امکان ہی نہیں؛ اس لیے کوئی اور شرعی وجہ نہ ہو تو شوہر کو منع کرنے کا حق نہیں ، البتہ اگر روکنے کی کوئی اور وجہ ہے جو سوال میں ذکر نہیں تو اس صورت میں حکم بدلنے کا امکان ہے.

الفتاوى الهندية (1/ 201):

"ويكره أن تصوم المرأة تطوعاً بغير إذن زوجها إلا أن يكون مريضاً أو صائماً أو محرماً بحج أو عمرة وليس للعبد والأمة أن يصوما تطوعاً إلا بإذن المولى كيفما كان، وكذا المدبر والمدبرة وأم الولد فإن صام أحد من هؤلاء للزوج أن يفطر المرأة وللمولى أن يفطر العبد والأمة وتقضي المرأة إذا أذن لها زوجها أو بانت ويقضي العبد إذا أذن له المولى أو أعتق فأما إذا كان الزوج مريضاً أو صائماً أو محرماً لم يكن له منع الزوجة من ذلك، ولها أن تصوم، وإن نهاها، وليس كذلك العبد والأمة فإن للمولى منعهما على كل حال، كذا في الجوهرة النيرة". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106200345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں