بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کو بیوی کے شادی سے پہلے نامحرموں سے تعلقات کا علم ہوجائے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال

عورت کا غیر اخلاقی تصویر کچھوانا وہ بھی نامحرموں کے ساتھ،  شادی سے پہلے، اس کا جواب دہ کون ہے؟  اب شادی کے بعد شوہر نے کسی طریقے سے دیکھ لیا ہے اور شوہر کو یہ چیز سخت نا پسند ہے تو اس میں دین کیا حکم دیتا ہے شوہر کو?

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق ہے تو عورت کا تصویر کھنچوانا،  نامحرم سے بات کرنا یا تعلقات رکھنا یہ سب ناجائز اور حرام تھا، اس پر توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، البتہ اگر اب وہ عورت صحیح معنٰی میں توبہ تائب ہوگئی ہو اور اصلاح کے ساتھ زندگی گزار رہی ہو، یا گزارنا چاہتی ہو  تو اس کو موقع دینا چاہیے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں، لہٰذا اگر آپ کی بیوی سے ماضی میں کوئی غلطی ہوئی ہے، لیکن وہ اس غلطی سے توبہ کرچکی ہے اور پشیمان ہے تو آپ  اس کی پردہ دری کریں، نہ طعنہ دیں اور نہ ہی اسے طلاق دیں، اس کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ رکھیں اور اچھا برتاؤ کریں؛  تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی غلطیوں اور گناہوں پر بھی پردہ ڈالیں اور آپ کو بھی معاف کریں۔ بحیثیتِ شوہر پاکیزہ اور کامیاب زندگی کے لیے نگرانی ضرور رکھیں، لیکن بے جا شک اور تجسس سے بھی بچیں؛ کیوں کہ ان معاملات میں تجسس اور بے جا شک انسان کی زندگی کو اجیرن کردیتاہے۔
اور اگر بیوی اب بھی اس میں مبتلا ہے تو پھر آپ کے لیے اسے ایک طلاق دے کر فارغ کرنا جائز ہوگا۔

ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری بیوی کسی چھونے والے ہاتھ کو جھٹکتی نہیں،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے طلاق دے دو، اس نے عرض کیا یہ ممکن نہیں؛ کیوں کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اس کی نگہبانی کرو( تا کہ وہ بدکاری میں مبتلا نہ ہو سکے)۔  

 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5 / 2171):
"وعن ابن عباس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن لي امرأةً لاترد يد لامس، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «طلقها» قال: إني أحبها قال: «فأمسكها إذاً»".

(وعن ابن عباس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن لي) : بفتح الياء وسكونها (امرأةً) : بالنصب على اسم إن (لاترد يد لامس) . أي: لاتمنع نفسها عمن يقصدها بفاحشة، (فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (طلّقها): قال: إني أحبها. قال: (فأمسكها إذن): أي: فاحفظها لئلاتفعل فاحشةً، وهذا الحديث يدل على أن تطلق مثل هذه المرأة أولى، لأنه عليه الصلاة والسلام قدم الطلاق على الإمساك، فلو لم يتيسر تطليقها بأن يكون يحبها، أو يكون له منها ولد يشق مفارقة الولد الأم، أو يكون لها عليه دين لم يتيسر له قضاؤه، فحينئذ يجوز أن لايطلقها، ولكن بشرط أن تمنعها عن الفاحشة، فإذا لم يمكنه أن يمنعها عن الفاحشة يعصي بترك تطليقها". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں