بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا اپنی ذہنی معذور بیوی کی جائیداد فروخت کرنا


سوال

زید کی والدہ کوتقریباً دس سال کا عرصہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنی یاد داشت کھو چکی ہیں اور اس وقت بھی وہ ذہنی طور پر مکمل معذور ہیں ۔ ان کی ملکیت میں ایک زمین ہے جس میں زید کے چچا بھی برابر کے شریک ہیں اور وہ زمین ایک مسجد کے ساتھ متصل ہے،جس کو مسجد انتظامیہ مسجد میں توسیع  کے کے لیے  خرید رہی ہے  اور زید کے والد نے زید کے چچا(جو کہ حصہ دار ہیں) سے مشورہ کرکے چار ماہ قبل مسجد والوں کے ساتھ 70لاکھ روپے میں اس زمین کا سودا کرکے بیعانہ وصول کیا، اور اب جب مکمل قیمت کی وصولی کا وقت آیا تو زید کو کسی نے کہا کہ یہ زمین آپ کی والدہ کی ملکیت ہے اور آپ لوگ اس زمین کو فروخت نہیں کرسکتے، ان کی اجازت کے بغیر ان کی زندگی میں اگر چہ وہ معذور ہی کیوں نہ ہوں۔

سوال یہ ہے کہ زید کے والد ایسی معذور بیوی کی زمین فروخت کرسکتے ہیں یا نہیں؟اگر فروخت کر سکتے ہیں تو اس سے حاصل ہونے والی رقم ورثاء میں تقسیم ہوگی یا نہیں ؟اور اگر اس زمین کو فروخت نہیں کرسکتے تو مسجد والوں کے ساتھ جو معاہدہ کیاہے اس کا کیا حکم ہے اور کیا شرعی حل ہے؟

جواب

شوہر اور بیوی دونوں کی ملک جدا جدا ہوتی ہے اور نکاح کے رشتے کی وجہ سے شوہر کو بیوی کی جائیداد کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوتے ؛ اس لیے زید کے والد کااپنی بیوی کی جائیداد فروخت کرنادرست نہیں ہے۔زیدکے والد زید کی والدہ کے  ولی بھی نہیں ہیں، اورخود  زید کی والدہ ذہنی معذور ہیں؛ اس لیے ان  کی اجازت بھی معتبر نہیں ہے۔ البتہ زید کے والد مذکورہ زمین میں سے اپنے بھائی کا حصہ ان کی اجازت سے فروخت کرسکتے ہیں، مگر زید کی والدہ کا حصہ فروخت کرنا اورمسجد میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔"فتاوی شامی" میں ہے:

''قوله ( ثم الوالي )... قوله ( بترتيب عصوبة الإنكاح ) فلا ولاية للنساء ولا للزوج إلا أنه أحق من الأجنبي''۔(2/220،ط:دارالفکر)

بصورت مسئولہ  مذکورہ زمین میں زید کی والدہ کے مملوکہ حصےکی بیع درست ہی نہیں، اس لیے بیعانہ واپس کرکے فروختگی کا معاہدہ ختم کیاجائے، البتہ زید کے چچا اگر اپنا حصہ بیچنے پر راضی ہیں تو ان کے حصے کے بقدر زمین فروخت کی جاسکتی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143904200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں