بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر نان و نفقہ نہیں دیتا


سوال

شوہر نان و نفقہ نہیں دیتا اور  ایک سال ہوا  طلاق بھی نہیں دی۔ برما میں اسلامی عدالت نہیں ہے ۔ خلع کے لیے شوہر پچاس لاکھ برمی پیسہ مطا لبہ کر تا ہے۔  بیوی کی تفریق کی کیا شرعی صورت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  بعض مخصوص حالات میں قاضی  شرعی کو یہ  اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی  میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ   نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں  جو  نکاح کے مصالح  اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً ان کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے،  اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلاً اگر شوہر بیوی کا نان و نفقہ ادا نہ کرسکتاہو یا ادا نہ کرتاہو  یا حقوقِ زوجیت  کی ادائیگی سے عاجز ہو تو  اسے چاہیے کہ از خود عورت کو طلاق دے دے، ایسی صورت میں اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے۔

         لہذا اگر شوہر اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لاتا اور اپنا گھر بسانے پر تیار نہیں ہوتا،  نان ونفقہ  دینے پر راضی نہیں ہوتا  تو ایسی صورت میں مذکورہ عورت  کو چاہیے کہ مقامی مسلمانوں کی پنچایت کے سامنے اس معاملہ کو رکھے، اور ان کے تعاون سے اس مسئلہ کا حل نکالا جائے،اور اگر شوہر  پھر بھی اپنی ضد پر اڑا رہے، اور اپنے رویہ میں  تبدیلی نہیں لائے تو سائلہ  اپنے  شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرکے کسی طرح طلاق حاصل کرلے، اور اگر وہ طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو  باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرے۔ 

اور مسئولہ صورت میں چوں کہ زیادتی شوہر کی طرف سے ہے؛ لہذا خلع میں شوہر کے لیے بدلِ خلع یعنی خلع کے عوض مال لینا جائز نہ ہوگا،  چہ جائے کہ شوہر نان و نفقہ نہ  دے کر بھی بدل خلع میں  پچاس لاکھ برمی پیسہ کا مطالبہ کرے،  یہ مطالبہ تو قطعی جائز نہیں ہے،  تاہم بدل خلع لینے کے باوجود خلع ہوجائے گا اور نکاح ختم ہوجائے گا۔

اور اگر شوہر نہ طلاق پر راضی ہو اور نہ خلع پر، اور حال یہ ہے کہ اس وقت چوں کہ برما میں مسلمان حاکم نہیں اور عورت کسی مسلمان حاکم کی عدالت سے رجوع کر کے فیصلہ کرانے سے بھی عاجز ہے تو عورت اپنا مقدمہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے سامنے پیش کرے ، اس جماعت کے ارکان دین دار متقی ہوں، دینی بصیرت رکھتے ہوں اور دینی تقاضوں کو سمجھتے ہوں، ایک دو  ان میں مستند عالمِ دین بھی ہوں، یہ حضرات صورتِ حال کی تحقیق کریں اور بذاتِ خود شوہر کو مطلع کریں، اگر شوہر کسی بات پر آمادہ نہ ہو تو یہ جماعت عورت پر طلاق واقع کردے، اس کے بعد عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

جو جماعت فیصلہ کرے ان حضرات کو چاہیے کہ اس سلسلے کی تمام قیود اور شرائط کتاب " الحیلۃ الناجزہ" سے معلوم کرکے فیصلہ کرے اور ارکانِ جماعت کم از کم تین ہوں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201818

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں