بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر متعدد بار طلاق دے کر اس کا منکر ہوجائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

کچھ سال پہلے ہمارےایک جاننے والوں نے اپنی بیٹی کی زبردستی شادی کردی،لڑکی اس شادی کے لیے دل سے بالکل بھی راضی نہیں تھی، لڑکی نے اس رات خودکشی کی کوشش کی، مگر بروقت اس کو بچا لیاگیا، لڑکی کا شوہر کردار کا بہت ہی خراب آدمی تھا، وہ بلا کا شرابی اور زانی بھی تھا، اس نے لڑکی پر زندگی بہت ہی تنگ کردی، اس کو پائی پائی  کامحتاج کر دیا، اس دوران دس سال کا عرصہ بیت گیا، لڑکی کے گھر والے لڑکی کی مدد کو نہ آۓ،ان کا کہنا تھا کہ اب تمھاری قسمت، اس دوران لڑکی کے  پانچ بچے ہوئے، جن میں سے دو بچے زندہ ہیں، تین مردہ ہوئے، اس کے شوہر نے لڑکی پر الزام بھی لگایا کہ مردہ بچوں میں سے دو میرے نطفے سے نہیں، حال آں کہ لڑکی پر گھر سے نکلنے پر بھی پابندی تھی. اس دوران اس کے شوہر نے لڑکی کو ایک ساتھ  تین طلاق بھی  دیں، جب لڑکی نے گھر والوں کو بتایاکہ اس نے مجھے 3 طلاق دیں ہیں، مگر اس کا شوہر ان طلاق سے مکر گیا، اور لڑکی کو فیملی کے سامنے جھوٹا کہا،  فیملی نے بھی لڑکی کو جھوٹا قرار دیا، اس کا شوہر تنہائی  میں تو لڑکی کو کہتاکہ میں نے تم کو واقعی طلاق دی تھی، دیکھ لو تم میرا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتی، اس طلاق کے بعد اس کے شوہر نے اس سے زبردستی رجوع بھی کر لیا اور ایک بیٹا بھی پیدا ہو گیا،اب بیٹا بھی 3سال کا ہو چکا ہے، اب اس کے شوہر نے اپنے بھائی کے سامنے اس کو پھر سے ایک ساتھ 3 طلاق دےدیں. وہ اپنی فیملی کے پاس چلی گئی، مگر اس کا شوہر پھر فیملی کے سامنے طلاق سے مکر گیااور اس کا بھائی بھی مکر گیا کہ میرے بھائی نے کوئی طلاق نہیں دی،اور لڑکی کو پھر سے جھوٹا کہا، جب کہ وہ اس کو اکیلے میں منانے کے بہانہ ملا، اورکہا کہ میں نے طلاق دی، مگر فیملی کے سامنے مکر جاتا ہے، انتہائی جھوٹا آدمی ہے،  جھوٹی قسمیں کھانے کا بھی عادی ہے، اس طرح سے 3 سال پہلے بھی طلاق دے کرمکر چکا ہے، اب لڑکی کی فیملی بھی کبھی تو لڑکی کو جھوٹا کہتی ہے اور کبھی یہ کہتی ہے کہ اس کے ساتھ جا کررہو. بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے. مگر لڑکی کسی بھی قیمت پر ساتھ رہنے کو تیار نہیں. اس کا کہنا ہے کہ میں اب اس شخص کے ساتھ  بالکل بھی نہیں رہنا چاہتی.اور نہ ہی حرام کی زندگی گزارنا چاہتی ہے.

آپ سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں اسلام کیا کہتاہے؟  مکمل راہ نمائی فرمائیں، یاد رہے کہ اب بھی لڑکی کسی بھی قیمت پر ساتھ نہیں رہنا چاہتی!

جواب

سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے تو مذکورہ عورت کے شوہر  کا رویہ اور سلوک انتہائی غلط اور ناجائز ہے، شریعت میں بیوی کے بہت سے حقوق ہیں، جن کی حق تلفی پر قیامت میں اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا، جھوٹ بول کر، دھوکا دے کر اور طاقت کے زور پر انسانوں کے مواخذے سے تو بچ سکتاہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت و طاقت سے باہر کوئی نہیں ہے، بیوی پر ظلم و ستم،  جبر اور زندگی تنگ کردینے والے کو اپنی قبر اور آخرت تنگ ہونے سے دڑنا چاہیے۔  نیز اس معاملہ میں مذکورہ عورت کے والدین اور گھروالوں کا رویہ بھی نامناسب ہے، اول تو لڑکی کی رضامندی کے بغیر شادی ہی نہیں کرنی چاہیے تھی، اور اگر کرنی ہی تھی تو کسی دین دار جگہ پر کی جاتی، اور اگر لاعلمی میں ایک بدکردار انسان سے شادی کردی گئی تو اس کے بعد لڑکی کو ظلم وستم سہنے کے لیے تنہا چھوڑنا خود ایک ظلم ہے، لڑکی کے اہلِ خانہ کو جائز معاملات میں اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے، علاقائی پنچایت اور خاندان کے معزز لوگوں کے سامنے اور پھراس سے آگے عدالت جاکر شوہر کے ظلم وستم  کا حل نکالنا چاہیے۔

اب اگر شوہر نے واقعۃً  تین طلاقیں دے دی ہوں  تو میاں بیوی کا نکاح ختم ہوگیا ہے، بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے، شوہر کا بیوی  کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ناجائز اور حرام ہے، شوہر کا طلاق دے کر لوگوں کے سامنے مکر جانے سے اللہ کے نزدیک اس کی بیوی حلال نہیں ہوگی، بلکہ حرام ہی رہے گی،  ایک حدیثِ مبارک  میں آتا ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے قیامت کی علامات کا پوچھا تو آپ ﷺ نے قیامت کی بعض علامات بتلائیں، اور اس میں یہ بھی ذکر کیا کہ اے ابن مسعود ! قیامت کی علامت علامات میں سے یہ بھی ہے کہ زنا کی اولاد بڑھ جائے گی، حدیث روایت کرنے والے فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ ابن مسعود سے پوچھا کہ کیا وہ مسلمان ہوں گے؟ تو انہوں نے کہا: وہ مسلمان ہوں گے، میں نے کہا: کیا قرآن مجید بھی ان کے پاس ہوگا؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، تو میں نے کہا: یہ کس طرح ہوگا؟ تو ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا: ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے گا، پھر اس کی طلاق کا انکار کرے گا، اور پھر اس کے ساتھ ہم بستری کرے گا، تو جب تک وہ ایسا کرتے رہیں وہ دونوں زنا کرنے والے ہیں“۔

لہذا شوہر کو اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور بیوی نے اگر شوہر کی زبان سے واقعۃً یہ الفاظ سنے ہوں تو  بیوی کو حتی الامکان شوہر کو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں ہوگا۔

اب چوں کہ شوہر طلاق کا منکر  ہے؛ اس لیے مذکورہ عورت کو چاہیے کہ اپنے دعوے کو دو گواہوں سے ثابت کرے، اگر دو گواہوں سے شوہر کا طلاق دینا ثابت ہوگیا تو نکاح ختم ہوگیا، اور شوہر کا سائلہ کی بہن سےکسی بھی قسم کا تعلق رکھنا حرام ہوگا، اور اگر دو گواہوں سے شوہر کا طلاق دینا ثابت نہیں ہوا، تو فریقین کسی مستند مفتی/ عالم کو حکم (ثالث) بنائیں، اور اس کے سامنے ساری صورت حال رکھیں، پھر وہ جو فیصلہ کریں اس کے مطابق عمل کریں۔اور جب تک فیصلہ نہ ہوجائے دونوں کا تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے۔

المعجم الكبير للطبراني میں ہے:

"عن  ابن مسعود : قلت: يا رسول الله، هل للساعة من علم تعرف به الساعة؟ فقال لي: «يا ابن مسعود، إن للساعة أعلامًا، وإن للساعة أشراطًا، ألا وإن من أعلام الساعة وأشراطها أن يكون الولد غيظًا، وأن يكون المطر قيظًا، وأن تفيض الأشرار فيضًا، ..... يا ابن مسعود، إن من أعلام الساعة وأشراطها أن يكثر أولاد الزنى». قلت: أبا عبد الرحمن، وهم مسلمون؟ قال: نعم، قلت: أبا عبد الرحمن، والقرآن بين ظهرانيهم؟ قال: «نعم» ، قلت: أبا عبد الرحمن، وأنى ذاك؟ قال: «يأتي على الناس زمان يطلق الرجل المرأة، ثم يجحد طلاقها فيقيم على فرجها، فهما زانيان ما أقاما»". (5/ 161، 162،  دارالکتب العلمیہ)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتوی ملاحظہ فرمائیں:

شوہر طلاق سے منکر ہوتو عورت کیا کرے؟

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں