بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر عرصہ بارہ سال سے حقوق زوجیت ادا نہیں کررہا تو بیوی کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال

ایک خاتون ہیں جن کی شادی کو چودہ سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ایک بیٹی ہے جس کی عمر بارہ سال ہے۔ بیٹی جب تین ماہ کی تھی تب سے اس کے شوہر ہم بستری کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اللہ کو علم ہے کہ کیا وجہ ہے،بیوی سے کوئی دلی رغبت اور دل چسپی نہیں ہے۔ وہ خاتون بارہ سال سے یہ اذیت برداشت کر رہی ہے۔علاج کا کہہ  کہہ  کر  تھک گئی ہے،شوہر علاج میں دل چسپی نہیں لیتے ،سارا وقت موبائل کا استعمال کرتے رہتے ہیں،رات دیر تک فلموں میں مشغول رہتے ہیں۔ بسترمیں بیوی کے قریب تک نہیں جاتے،بیوی اپنی نفسانی خواہشات سے مجبور ہوکر پاس جائے تو کوئی  رسپونس نہیں دیتے۔ وہ خاتون بہت بے بس اور مجبور ہے ،ماں باپ کا انتقال ہو گیا ہے اور ایک بھائی ہے جو اس کے اس مسئلے میں دل چسپی نہیں لیتے۔ الحمدللہ وہ خاتون شرعی پردہ کرتی ہیں اور دین پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہر طرح سے اپنے شوہر کی منت کرکے تھک گئی ہیں۔ ذہنی تکلیف میں مبتلا رہتی ہیں، مگر شوہر کو کوئی پرواہ نہیں۔ شوہر نماز بھی نہیں پڑھتے ،دین سے بھی کوئی لگاؤ نہیں۔

اس عورت کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے اور اس کے شوہر کو گناہ نہیں ہوتا کسی جوان عورت کو اس طرح رکھنے پر؟ گھر کے سارے کام کاج وہ خاتون خود کرتی ہیں۔ شوہر اس حد تک لا تعلق ہیں کہ کبھی کسی کھانے کی، لباس کی یا خاتون کی تعریف نہیں کرتے۔ وہ خاتون بہت مجبوری اور اذیت میں وقت گزار رہی ہیں۔اور کہتی ہیں کہ میرا اللّٰہ میرے شوہر سے دنیا اور آخرت میں میرے حقوق کے بارے میں خود ہی پوچھے!

جواب

واضح  رہے  کہ بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر کا بیوی سے چار ماہ  سے زائد ہم بستری نہ کرنا جائز نہیں ہے۔ صورتِ  مسئولہ میں شوہر کا اپنی بیوی سے یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے اور  شوہر اس رویے  کی وجہ سے گناہ گار ہے، اور  اپنی بیوی کی حق تلفی کر رہا ہے۔ جب تک بیوی اپنے شوہر کا رویہ برداشت کرتی رہے اور اس کی پردہ پوشی کرتی رہے، وہ عند اللہ ماجور ہوگی اور اگر اس کی برداشت سے باہر ہوجائے تو بیوی کو طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا جائز ہے۔

البتہ طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ صلح کے طور  پہلے دونوں خاندانوں کے بڑے / سمجھ دار لوگوں کے سامنے اپنا مسئلہ رکھ کر ان افراد کے ذریعہ مل  بیٹھ کر   اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں اوردونوں خاندانوں کے ان مصالحتی افراد کو چاہیے کہ اس عورت کے شوہر کو فلم بینی   کے گناہ اور دیگربری  عادتوں سے نکلوانے کی اور اس کو علاج کرانے پر راضی کرنے کی کوشش کریں۔ اگر پھر بھی معاملات  ٹھیک  ہونے کی امید نہ ہو، یعنی شوہر کسی بھی علاج معالجے وغیرہ پر آمادہ نہ ہو  اور مذکورہ عورت کے لیے    گناہوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو یہ عورت اپنے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے،یوں اسے آمادہ کرکے اس سے خلاصی حاصل کرلی جائے۔

تاہم یہ یاد رہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر بذریعہ عدالت حاصل کردہ یک طرفہ طلاق یا خلع   شرعی طور پر واقع نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 202):

"ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحياناولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها، ويؤمر المتعبد بصحبتها أحيانا، وقدره الطحاوي بيوم وليلة من كل أربع لحرة وسبع لأمة. ولو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها نهر بحثا"۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 228):

" وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلًا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقًا وسفاهةً رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں