زید نے ایک شخص کو ایک کروڑ روپے دیے؛ تاکہ اس سے وہ اپنی زمین پر دکانیں بنائے اور یہ طے کیا کہ جو دکانیں بن گئیں ان کا کرایہ آدھا آدھا لیں گے اور جب آپ مجھے میرے ایک کروڑ واپس کریں گے تو پھر میں درمیان سے نکل جاؤں گا، آپ کو آپ کی زمین اور اس کی دکانیں یعنی تعمیر شدہ بلڈنگ ملے گی۔
مہربانی کریں جواب دیں کہ یہ صورت ٹھیک ہے یا نہیں؟ اور اگر ٹھیک نہیں تو ٹھیک صورت کیا ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ طریقہ پر نہ شراکت داری درست ہے اور نہ ہی کرایہ لینا جائز ہے، درست صورت یہ ہوگی کہ مسمی زید مذکورہ شخص سے پچاس لاکھ میں آدھی زمین خرید لے اور پھر دونوں افراد پچاس پچاس لاکھ نقد رقم سے مذکورہ زمین پر بطورِ شریک تعمیرات کروائیں، اور جو کرایہ آئے وہ آدھا آدھا تقسیم کرلیں۔
مستقبل میں کوئی شریک شراکت داری سے نکالنا چاہے تو اپنا حصہ دوسرے شریک کو اس وقت کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے فروخت کردے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200869
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن