میں ایک کارپینٹرہوں، میراکام مختلف قسم کی کرسیاں بناناہے، چنددوکان دارمجھ سےآرڈرپرمال بنواتےہیں۔کبھی کبھارمیرےپاس سرمایہ نہیں ہوتا، میرادوست مجھےسرمایہ فراہم کرنا چاہ رہاہے۔صورت یہ تجویزہوئی ہے:
میرےگاہک دوکان داروں میں سےایک دوکان دارعبداللہ کوہم نےمتعین کردیاہے، عبداللہ دوکان دارجب مجھےآرڈر دے گا تو میں اپنے دوست سےخام مال خریدنےکےلیے سرمایہ لوں گا، جس سےعبداللہ دوکان دار کاآرڈر پوراکروں گا جب مال تیارہوجاے گاتومیں اپنےملازم (جس کومیرےدوست نےاپنا وکیل بنایاہواہے)سےکہوں گامیرےدوست کومال تیارہونےکی اطلاع کردو ۔ملازم اطلاع کرکے اس کی اجاز ت سےدوکان دار کواطلاع کرتاہے کہ مال اٹھالیں ۔دوکان دار اپنےملازم کوبھیج کرمال اٹھوالیتاہے۔
نفع کی تقسیم اس طرح ہے:
ایک کرسی پرلاگت 170روپےآتی ہے۔دوکان دارکو ہم 250 کی دیتےہیں 80 روپےنفع میں سے50 سرمایہ دینے والے دوست کےاور 30 میرےہوتےہیں۔کیااس طرح کاہمارامعاملہ شرعی لحاظ سےجائزہے؟
بصورتِ مسئولہ اگر حاصل ہونے والے نفع کی تقسیم تناسب کے اعتبار سے طے کی گئی ہے تو مذکورہ طریقہ کے مطابق شراکت داری اور تناسب کے اعتبار سے نفع کی تقسیم شرعاً درست ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200774
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن