بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شراکت ختم کرنے کا حکم


سوال

دو بھائی مشترکہ طور کام کررہے تھے اور جب الگ ہونے کا وقت آیا، دونوں بھائیوں میں سے دوسرا چھوٹا بھائی جونئیر بڑے بھائی کو کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے مال میں سے ماں، باپ ، بہنوں کو پورا حصہ مطلب جتنا ایک حق دار کا حق ہوتا ہے ان کو دیتے ہیں۔  بڑے بھائی نے کہہ دیا کہ میرے سر پر بہت ذمہ داریاں ہیں اور میرے دو جوان بیٹے شادی کی عمر میں ہیں  اور ان کے لیے گھراور سامان لانا ہے۔ میں کسی کو حصہ نہیں دے سکتا، ہاں میں کھانے،پینے،کپڑے کا خرچہ ضرور کروں گا۔ لیکن چھوٹا بھائی نہیں مانا اور اپنی شریک مالیت کو تینوں پر تقسیم کیا ۔مطلب  والد کو بھی شامل کیا اور دوسری بات یہ کہ چھوٹے بھائی نے شراکت میں ایک سال گھر پر گزارا کچھ ذاتی معاملے کی وجہ سے۔ بڑے بھائی نے ایک سال کا عوض مانگا، ان کا عوض جائز ہے؟

جواب

اگر آپ کے سوال سے مقصود یہ ہے کہ دو بھائیوں نے سرمایہ لگاکر مشترکہ کاروبار شروع رکھاتھا اور دونوں اس کاروبار میں شریک تھے اور دونوں عامل(یعنی محنت کرنے والے)تھے، اس صورت میں اگر اب دونوں بھائی اپنی اس شراکت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اب نفع ونقصان کا حساب کرکے لین دین ختم کرکے  شراکت سے علیحدہ ہوسکتے ہیں۔

شرکت ختم کرنے کی صورت میں سرمایہ سے خریداجانے والا جو سامان ہوگا اس مشترکہ سامان کی قیمت لگاکر ہر ایک کا حصہ اور منافع اپنی اپنی سابقہ شرائط کے مطابق تقسیم کرلیاجائے، اور چاہیں تو ہر ایک شریک اپنے موجود سرمایہ کی رقم کے بقدر سامان لے لے یا دوسرا فریق باہمی رضامندی سے سامان اپنے پاس رکھ کر نقد رقم دے دے دونوں صورتیں درست ہیں۔(امدادالاحکام ص:340)

شراکت اگر صرف دو بھائیوں کی تھی اور اس میں والد یا کسی اور کا سرمایہ شامل نہ تھا اس صورت میں شراکت ختم کرکے دونوں اپنے اپنے حصے کے مالک بن جائیں گے کسی اور کو حصہ دینے کے یہ پابند نہیں ہیں؛ لہذا چھوٹے بھائی کا یہ کہنا کہ اس شراکت کو ختم کرکے والد اور بہنوں وغیرہ کو بھی حصہ دیا جائے اور اس پر بڑا بھائی راضی نہیں ہے تو  یہ مطالبہ درست نہیں ہے۔ اگر والد صاحب  نفقے کے انتظام پر قادر نہیں ہیں تو والدین اور غیر شادی شدہ بہنوں کے نان نفقے کا انتظام بھائیوں کے ذمے ہوگا، اور خرچہ دینے کے لیے بڑا بھائی بھی راضی ہے، اس لیے چھوٹے بھائی کو چاہیے کہ مستقل حصہ دینے کا مطالبہ نہ کرے۔

اس شراکتی کاروبار کے عرصہ میں اگر ایک بھائی نے ایک سال عمل نہیں کیا اور ایک سال کا عرصہ گھر پر گزارا اور اس دورانیہ میں دوسرابھائی محنت کرتا رہا اگر اس اضافی محنت کے سلسلہ میں پہلے سے باہمی طور پر عامل(محنت کرنے والے )بھائی کو زیادہ نفع دینا طے تھا تو اس صورت میں بڑا بھائی طے شدہ زیادہ نفع لینے کا حق دار ہے، لیکن اگر پہلے سے اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، بلکہ ایک  کی محنت کے باوجود سابقہ معاہدہ کے مطابق نفع کی تقسیم پر دونوں کی رضامندی تھی تو اس صورت میں بڑا بھائی اضافی عوض لینے کا حق نہیں رکھتا۔

نوٹ:اگر مذکورہ کاروبار والد کا ہو اور بیٹے محنت کرنے والے ہوں یا والد کا سرمایہ اس کاروبار میں شامل ہو یا وراثتی کاروبار ہوتو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ دریافت کرلیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں