بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شراکت اور اس کے احکام


سوال

شراکت کیا چیز ہے اس کی اقسام و احکامات کیا ہیں؟

جواب

واضح ہو کہ شرکت دو یا دو سے زیادہ لوگوں  کا کسی چیز  میں  مالک بننے کو کہتے ہیں۔ اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:

1- شرکتِ ملک۔ 

2-شرکتِ عقد۔

1- شرکتِ ملک: اس شرکت کو کہتے ہیں   کہ دو آدمی کسی  مال کے مالک ہونے  میں شریک ہوجائیں۔ خواہ  میراث کی صورت میں ہوں یا ہبہ کی صورت میں  یا مشترکہ طور پر خریدنے کی صورت میں۔

شرکتِ ملک کاحکم یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے حصے کے مالک ہیں، اپنے شریک کے حق میں اجنبی ہیں اور اس کے حصے میں کسی قسم کا تصرف اس کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتے۔

2- شرکتِ عقد: دو آدمیوں کا مال اور منافع میں شریک ہونے کا معاملہ طے کرلینا ہے۔ شرکت عقد کی تین قسمیں ہیں:

1- شرکتِ اموال۔

2- شرکتِ اعمال۔

3- شرکت وجوہ۔

1- شرکتِ اموال: دو یا زائد آدمیوں کا  بایں طور معاملہ کرنا  کہ وہ اپنے متعین کردہ  مال میں سے تجارت کریں گے اور  نفع اور نقصان میں خاص تناسب سے شریک ہوں گے۔

2- شرکتِ اعمال: دو یا زائد اشخاص  آپس میں یہ طےکرلیں کہ ہم  خاص قسم کا کام (جیسے کپڑے سینا یا رنگ کا کام کرنا یا عمارت تعمیر کرنا وغیرہ) کریں گے اور اس میں جو  بھی آمدن ہوگی، اس میں شریک ہوں گے۔

3- شرکتِ وجوہ: اس معاملہ میں شریکین کے پاس مال نہیں ہوتا، بلکہ دونوں یہ طے کرلیتے ہیں کہ ہم اپنے تعلقات کی بنا پر لوگوں سےادھار پر  خرید کر فروخت کرتے ہیں اور جو نفع ہوتا ہے اسے آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔

پھر ان میں ہر ایک دو قسم پر ہے: شرکتِ مفاوضہ اور شرکت عنان۔

1- شرکتِ مفاوضہ: اس عقد میں دونوں شریک، مال میں، تصرف کرنے  میں، نفع میں، ایک دوسرے کا کفیل بننے میں اور قرضہ وغیرہ کی ذمہ داری میں برابر کے شریک ہوں۔  اس  کے اَحکام مندرجہ ذیل ہیں:

1) شریکین میں سے جو بھی کوئی چیز خریدے گا وہ دونوں کے درمیان مشترک ہوگی، سوائے گھر کی ضروری اشیاء کے۔

2) شریکین میں سے اگر کسی پر قرضہ لازم ہوتا  ہے تو وہ دوسرے پر بھی لازم ہوگا، لہٰذا قرض خواہ اس سے بھی مطالبہ کرسکے گا۔

3) ایک شریک اگر کوئی معاہدہ کرتا ہے تو  اس   معاہدہ کے حقوق دوسرے پر بھی لازم ہوں گے۔

4) ایک شریک کا کوئی بھی تصرف  اس پر اور اس کے شریک پر نافذ ہوگا۔

5) نفع اور نقصان برابری کی بنیاد پر تقسیم ہوگا۔

2- شرکتِ عنان: جس میں دونوں شریک، مال میں، تصرف کرنے  میں، نفع میں، ایک دوسرے کا کفیل بننے میں اور قرضہ  میں برابر کے شریک نہ  ہوں۔  اس  کے احکام مندرجہ ذیل ہیں:

1) شریکین میں سے ایک اگر  کوئی چیز خریدے گا وہ دونوں کے درمیان مشترک  نہیں  ہوگی۔

2) شریکین میں سے اگر کسی پر قرضہ لازم ہوتا  ہے تو وہ دوسرے پر لازم نہیں  ہوگا، لہٰذا قرض کا مطالبہ صرف قرض لینے والے سے ہوگا۔

3) ایک شریک اگر کوئی معاہدہ کرتا ہے تو  اس   معاہدہ کے حقوق دوسرے پر لازم نہیں ہوں گے۔

4) ایک شریک کا کوئی بھی تصرف   اس پر اور اس کے  شریک پر نافذ  صرف اس صورت میں نافذ   ہوگا  جب کہ طے شدہ تجارتی معاملہ ہو، ورنہ نافذ نہیں ہوگا۔

5) نفع شرکت کے معاہدے میں طے شدہ شرح فیصد اور نقصان  سرمائے کے تناسب سے ہوگا۔

وعلی هامش اللباب في شرح الکتاب (121/2):

"(الشركة) لغةً: الخلطة، وشرعًا- كما في القهستاني عن المضمرات -: اختصاص اثنين أو أكثر بمحل واحد."

المبسوط للسرخسی (151/11):

"(ثُمَّ) الشَّرِكَةُ نَوْعَانِ: شَرِكَةُ الْمِلْكِ وَشَرِكَةُ الْعَقْدِ. (فَشَرِكَةُ الْمِلْكِ) أَنْ يَشْتَرِكَ رَجُلَانِ فِي مِلْكِ مَالٍ، وَذَلِكَ نَوْعَانِ: ثَابِتٌ بِغَيْرِ فِعْلِهِمَا كَالْمِيرَاثِ، وَثَابِتٌ بِفِعْلِهِمَا، وَذَلِكَ بِقَبُولِ الشِّرَاءِ، أَوْ الصَّدَقَةِ أَوْ الْوَصِيَّةِ. وَالْحُكْمُ وَاحِدٌ، وَهُوَ أَنَّ مَا يَتَوَلَّدُ مِنْ الزِّيَادَةِ يَكُونُ مُشْتَرَكًا بَيْنَهُمَا بِقَدْرِ الْمِلْكِ، وَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْأَجْنَبِيِّ فِي التَّصَرُّفِ فِي نَصِيبِ صَاحِبِهِ."

الموسوعة الفقهیة (33/26):

"عرَّفَ الْحَنَفِيَّةُ شَرِكَةَ الْعَقْدِ بِأَنَّهَا: " عَقْدٌ بَيْنَ الْمُتَشَارِكِينَ فِي الأَْصْل وَالرِّبْحِ " كَذَا نَقَلُوهُ عَنْ صَاحِبِ الْجَوْهَرَةِ."

دررالحکام شرح غرر الأحکام (318/2):

"(وَهِيَ) أَيْ شَرِكَةُ الْعَقْدِ (ثَلَاثَةٌ) الْأَوَّلُ (شَرِكَةٌ بِالْأَمْوَالِ وَ) الثَّانِي (شَرِكَةٌ بِالْأَعْمَالِ وَتُسَمَّى) هَذِهِ الشَّرِكَةُ اصْطِلَاحًا (شَرِكَةُ الصَّنَائِعِ، وَ) شَرِكَةُ (التَّقَبُّلِ، وَ) شَرِكَةُ (الْأَبْدَانِ) وَوَجْهُ التَّسْمِيَةِ ظَاهِرٌ.(وَ) الثَّالِثُ (شَرِكَةُ الْوُجُوهِ)."

الموسوعة الفقهیة (36/26):

"فَشَرِكَةُ الأَْمْوَال: عَقْدٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَأَكْثَرَ، عَلَى أَنْ يَتَّجِرُوا فِي رَأْسِ مَالٍ لَهُمْ، وَيَكُونَ الرِّبْحُ بَيْنَهُمْ بِنِسْبَةٍ مَعْلُومَةٍ. سَوَاءٌ عُلِمَ مِقْدَارُ رَأْسِ الْمَال عِنْدَ الْعَقْدِ أَمْ لاَ؛ لأَِنَّهُ يُعْلَمُ عِنْدَ الشِّرَاءِ، وَسَوَاءٌ شَرَطُوا أَنْ يُشْرَكُوا جَمِيعًا فِي كُل شِرَاءٍ وَبَيْعٍ، أَمْ شَرَطُوا أَنْ يَنْفَرِدَ كُل وَاحِدٍ بِصَفَقَاتِهِ، أَمْ أَطْلَقُوا. وَلَيْسَ حَتْمًا أَنْ يَقَعَ الْعَقْدُ بِلَفْظِ التِّجَارَةِ، بَل يَكْفِي مَعْنَاهَا: كَأَنْ يَقُول الشَّرِيكَانِ: اشْتَرَكْنَا فِي مَالِنَا هَذَا، عَلَى أَنْ نَشْتَرِيَ وَنَبِيعَ، وَنَقْسِمَ الرِّبْحَ مُنَاصَفَةً."

7 - وَأَمَّا شَرِكَةُ الأَْعْمَال: فَهِيَ: أَنْ يَتَعَاقَدَ اثْنَانِ فَأَكْثَرُ عَلَى أَنْ يَتَقَبَّلُوا نَوْعًا مُعَيَّنًا مِنَ الْعَمَل أَوْ أَكْثَرَ أَوْ غَيْرَ مُعَيَّنٍ لَكِنَّهُ عَامٌّ، ...وَأَمَّا شَرِكَةُ الْوُجُوهِ: فَهِيَ أَنْ يَتَعَاقَدَ اثْنَانِ فَأَكْثَرُ، بِدُونِ ذِكْرِ رَأْسِ مَالٍ، عَلَى أَنْ يَشْتَرِيَا نَسِيئَةً وَيَبِيعَا نَقْدًا، وَيَقْتَسِمَا الرِّبْحَ بَيْنَهُمَا بِنِسْبَةِ ضَمَانِهِمَا لِلثَّمَنِ."

وفیه أیضًا (68/26):

"أَحْكَامٌ خَاصَّةٌ بِشَرِكَةِ الْمُفَاوَضَةِ:

أَوَّلاً: كُل مَا اشْتَرَاهُ أَحَدُهُمَا فَهُوَ لِلشَّرِكَةِ إِلاَّ حَوَائِجَهُ وَحَوَائِجَ أَهْلِهِ الأَْسَاسِيَّةَ: ...

ثَانِيًا: مَا لَزِمَ أَحَدَ الشَّرِيكَيْنِ فِي الْمُفَاوَضَةِ مِنْ دَيْنِ التِّجَارَةِ، أَوْ مَا يَجْرِي مَجْرَاهَا. يَلْزَمُ الآْخَرَ، وَيَكْفِي إِقْرَارُهُ بِالدَّيْنِ لِيَتَرَتَّبَ عَلَيْهِ لُزُومُهُ لِلْمُقِرِّ بِمُقْتَضَى إِقْرَارِهِ، ثُمَّ لُزُومُهُ لِشَرِيكِهِ بِمُقْتَضَى كَفَالَتِهِ. وَهَذَا عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ ...

ثَالِثًا: حُقُوقُ الْعَقْدِ الَّذِي يَتَوَلاَّهُ أَحَدُهُمَا فِي مَال الشَّرِكَةِ، مُسْتَوِيَةٌ بِالنِّسْبَةِ إِلَيْهِمَا. بِلاَ خِلاَفٍ بَيْنَ الْقَائِلِينَ بِالْمُفَاوَضَةِ ...

رَابِعًا: تَصَرُّفُ الْمُفَاوِضِ نَافِذٌ عَلَيْهِ وَعَلَى شَرِيكِهِ فِي كُل مَا يَعُودُ عَلَى مَال الشَّرِكَةِ نَفْعُهُ: سَوَاءٌ أَكَانَ مِنْ أَعْمَال التِّجَارَةِ وَمُلْحَقَاتِهَا أَمْ مِنْ غَيْرِ ذَلِكَ ...

أَحْكَامٌ خَاصَّةٌ بِشَرِكَةِ الْعَنَانِ:

71 - أَوَّلاً - لَيْسَ كُل مَا يَشْتَرِيهِ أَحَدُ الشَّرِيكَيْنِ يَكُونُ لِلشَّرِكَةِ: لأَِنَّ الشَّرِيكَ الَّذِي لَيْسَ بِيَدِهِ شَيْءٌ مِنْ رَأْسِ مَال الشَّرِكَةِ، لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَشْتَرِيَ لَهَا شَيْئًا مَا بِغَيْرِ إِذْنِ شَرِيكِهِ ...

ثَانِيًا: ذَهَبَ الْحَنَفِيَّةُ إِلَى أَنَّ الدَّيْنَ الَّذِي يَلْزَمُ أَحَدَ الشَّرِيكَيْنِ لاَ يُؤْخَذُ بِهِ الآْخَرُ: ...

ثَالِثًا - ذَهَبَ الْحَنَفِيَّةُ إِلَى أَنَّ حُقُوقَ الْعَقْدِ الَّذِي يَتَوَلاَّهُ أَحَدُ الشَّرِيكَيْنِ، قَاصِرَةٌ عَلَيْهِ: لأَِنَّهُ مَا دَامَ الْفَرْضُ أَنْ لاَ كَفَالَةَ، فَإِنَّ حُقُوقَ الْعَقْدِ إِنَّمَا تَكُونُ لِلْعَاقِدِ ...

رَابِعًا - ذَهَبَ جُمْهُورُ الْفُقَهَاءِ إِلَى أَنَّ نَفَاذَ تَصَرُّفِ شَرِيكِ الْعَنَانِ عَلَى شَرِيكِهِ يَخْتَصُّ بِالتِّجَارَةِ: ..."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144203201575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں