بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شاہ میر نام رکھنا


سوال

’’شاہ میر‘‘  نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

’’شاہ‘‘  اور’’میر‘‘  دونوں فارسی زبان کے الفاظ ہیں، دونوں الفاظ کےمختلف معانی آتے ہیں۔ان الفاظ کا اکثر استعمال  "سردار" اور "بادشاہ" کے معنی میں ہے، اور''میر'' کامعنی "امیر" بھی آتاہے، اس لحاظ سے  ''شاہ میر'' کامعنی ہوگا ''بادشاہوں کابادشاہ" یا "سرداروں کاسردار''۔نام درست ہے ،البتہ اس میں مبالغہ پایا جاتاہے اور حادیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مبالغہ آمیز ناموں کو ناپسند فرمایاہے۔لہذااس نام کی بجائے انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا صلحاء کے ناموں میں سے کسی کانام کا انتخاب  کرکے رکھ لیں۔

 بخاری شریف میں ہے:

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت  ہے کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برا نام اس شخص کا ہوگا جو مَلِكُ الْأَمْلَاكِ (بادشاہوں کا بادشاہ)اپنا نام رکھے‘‘۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 418):
" ولايسميه حكيماً، ولا أبا الحكم ولا أبا عيسى ولا عبد فلان، ولايسميه بما فيه تزكية نحو الرشيد والأمين، فصول العلامي. أي لأن الحكم من أسمائه تعالى، فلايليق إضافة الأب إليه أو إلى عيسى.
أقول: ويؤخذ من قوله: ولا عبد فلان منع التسمية بعبد النبي، ونقل المناوي عن الدميري أنه قيل بالجواز بقصد التشريف بالنسبة، والأكثر على المنع خشية اعتقاد حقيقة العبودية، كما لا يجوز عبد الدار اهـ. ومن قوله: ولا بما فيه تزكية المنع عن نحو محيي الدين وشمس الدين مع ما فيه من الكذب، وألف بعض المالكية في المنع منه مؤلفاً وصرح به القرطبي في شرح الأسماء الحسنى وأنشد بعضهم فقال:
أرى الدين يستحيي من الله أن يرى ... وهذا له فخر وذاك نصير
فقد كثرت في الدين ألقاب عصبة ... هم في مراعي المنكرات حمير
وإني أجل الدين عن عزه بهم ... وأعلم أن الذنب فيه كبير
ونقل عن الإمام النووي أنه كان يكره من يلقبه بمحيي الدين، ويقول: لا أجعل من دعاني به في حل ومال إلى ذلك العارف بالله تعالى الشيخ سنان في كتابه تبيين المحارم، وأقام الطامة الكبرى على المتسمين بمثل ذلك، وأنه من التزكية المنهي عنها في القرآن. ومن الكذب قال: ونظيره ما يقال للمدرسين بالتركي: أفندي وسلطان ونحوه، ثم قال: فإن قيل: هذه مجازات صارت كالأعلام، فخرجت عن التزكية. فالجواب: أن هذا يرده ما يشاهد من أنه إذا نودي باسمه العلم وجد على من ناداه به، فعلم أن التزكية باقية، وقد كان الكبار من الصحابة وغيرهم ينادون بأعلامهم ولم ينقل كراهتهم لذلك، ولو كان فيه ترك تعظيم للعلم وأهله لنهوا عنه من ناداهم بها اهـ. ملخصاً. وقد أطال بما ينبغي مراجعته".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں