رمضان المبارک میں بہت سےلوگ عمرہ کے لیے جاتے ہیں، وہاں وتر کی دو رکعت پر سلام پھیر کر تیسری رکعت کے لیے دوبارہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھے جاتے ہیں اورایک رکعت علیحدہ سلام کے ساتھ پڑھی جاتی ہے ،ہم پاکستان سے جانے والے لوگ چوں کہ حنفی ہیں ہمارے لیے آئمہ حرمین کی اقتدا میں وتر کی نماز پڑھنے کا کیا طریقہ اور حکم ہے؟ کیا ہم مکمل طور پر ان کے پیچھے ان کے طریقے کے مطابق ان کی اقتدا کرسکتے ہیں؟
حنفی مسلک میں وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے ؛ اس لیے حنفی کے لیے دو سلام کے ساتھ وتر پڑھنا درست نہیں ہے، لہذا حنفی حضرات کو چاہیے کہ وہ حرمین میں تراویح تو ان کے امام کی اقتدا ہی میں ادا کریں، لیکن وتر کی نماز میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوں، بلکہ اپنی علیحدہ اجتماعی یا انفرادی پڑھ لیں ، اور اگر ان کے ساتھ ادا کرلیں تو بعد میں اس کا اعادہ کرلیں۔
' فظهر بهذا أن المذهب الصحيح صحة الاقتداء بالشافعي في الوتر إن لم يسلم على رأس الركعتين وعدمها إن سلم۔ والله الموفق للصواب' (البحر الرائق، 2/40، باب الوتر والنوافل، ط: سعید)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200353
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن