بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے موقع پر ہدیہ دینا


سوال

آج کل شادیوں میں دولہا اور دلہن کو رشتےداروں، دوست و احباب کی جانب سے کچھ پیسے دیے جاتے ہیں۔جو مختلف مواقع پر دیے جاتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

1۔جس دن لڑکے والے لڑکی کے ہاں برات لے کر جاتے ہیں، اس سے کچھ دیر پہلے لڑکے کو گھر میں ایک جگہ بٹھایا جاتا ہے، پھر لڑکے کے رشتےداروں کی جانب سے ہر کوئی اسے کچھ پیسے دیتا ہے۔ اس رسم کو سلامی یا سلامیاں کہا جاتا ہے۔

2۔ جب برات لڑکی کے ہاں جاتی ہے اور نکاح کے بعد  مرد و خواتین کھانا کھا لیتے ہیں تو  اس کے بعد لڑکے کو لڑکی کے ساتھ یعنی دولہا اور دلہن کو ایک ساتھ ایک جگہ بیٹھا دیا جاتا ہے تو اس کے بعد دولہا اور دلہن کے رشتےداروں، دوست و احباب کی جانب سے دونوں کو کچھ پیسے دیے جاتے ہیں اس رسم کو بھی سلامی یا سلامیاں کہا جاتا ہے۔

3۔جس دن دولہے کی جانب سے ولیمہ کیا جاتا ہے تو جب مرد و خواتین کھانا کھا لیتے ہیں، اس کے بعد رشتےداروں، دوست و احباب کی جانب سے انہیں کچھ پیسے دیے جاتے ہیں۔جس نے پیسے دیے ہوتے ہیں اس کا نام اور اس کے پیسے جو اس نے دیے ہوتے ہیں اسے باہر بیٹھے ایک یا دو آدمی لکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ والے پیسے بھی بعد میں دولہا اور دلہن کو ہی ایک ساتھ اکھٹے کرکےدے دیے جاتے ہیں۔

اب میرے آپ سے یہ سوالات ہیں:

1۔جو آج کل شادیوں پر دولہا اور دلہن کو پیسے دینے والی مذکورہ صورتیں جو بتائیں ہیں، کیا یہ صورتیں جائز ہیں؟ 

2۔اگر اوپر والی ساری صورتیں یا جو صورت ناجائز ہے اگر اس موقع پر کوئی اپنی خوشی سے دولہا اور دلہن کو  کوئی پیسے دینا چاہے یا دینے  کے لیے کہے یا مجبور نہ کرے تو اس صورت میں وہ کیسے دولہا اور دلہن کو پیسے دے جو دولہا اور دلہن کے لیے جائز ہوں؟

جواب

درج بالا تین صورتوں میں سے پہلی دو صورتیں (دولہے کو سلامی اور دلہن کو سلامی) چوں کہ ہدیہ (گفٹ)  کرنے والے کی طرف سے ہدیہ ہوتی ہیں، لہذا اس کے لینے دینے میں حرج نہیں، جس کو سلامی دی جائے وہی اس کی ملکیت شمار ہوگی۔

اور تیسری صورت جس میں رقم کو لکھا جاتا ہے تو  اگر لکھنے کا یہ رواج ہو کہ جس نے جتنی رقم ہدیہ کی ہے بعد میں اس کو اس کی کسی تقریب میں اس رقم سے زائد رقم دی جائے جیساکہ بعض جگہ یہ رواج ہے تو یہ صورت جائز نہیں ہے، اس طریقہ سے اجتناب ضروری ہے، اور اگر ویسے ہی بطورِ یادگار محفوظ رکھنے کے لیے لکھا جاتا ہو تو اس میں حرج نہیں ہے۔

اور جہاں ہدایا کی لین دین ہو، اس میں تکلف سے کام نہ لیا جائے، یعنی جتنی گنجائش ہو، طیبِ نفس کے ساتھ دیا جائے، بدلے کی امید بھی نہ ہو، اور گنجائش نہ ہونے کی صورت میں بتکلف لازم بھی نہ سمجھا جائے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں