بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کی رسمیں


سوال

میں خود تو کسی غیر شرعی محفل میں نہیں جاتی، مگر دوسروں کو قائل کرنے کے لیے مجھے مہندی مایو اور سال گرہ وغیرہ کی شرعی ممانعت پر کچھ مواد چاہیے؛ تاکہ میں صحیح تر انداز میں لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرسکوں!

جواب

اسلام میں نکاح ایک بامقصد اور پروقار عمل ہے ، خود حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو پیغمبروں کی سنت قرار دیا ہے ۔

"عن أبي أیوب رضي اللّٰه عنه قال : قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم : أربع من سنن المرسلین : الحیاء والتعطر والسؤال والنکاح". ( سنن الترمذي ۱ ؍ ۲۰۶ رقم : ۱۰۸۰ ) 
اور  نکاح کو سادہ اور آسان رکھا گیا ہے اور اس میں تکلفات اور لوازمات کو  ناپسند قرار دیا گیا ہے۔نکاح میں نکاح کا قیام مسجد میں کرنا اور رخصتی کے بعد ولیمہ کرنا یہ چیزیں شریعت سے ثابت ہیں، اس کے علاوہ جو رسوم اور تکلفات ہمارے ہاں اختیار کیے جاتے ہیں، ان سے نکاح کی سنت مشکل ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سے خاندانوں میں شادیاں انہی رسومات کے پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے متاخر ہوجاتی ہیں۔
”مایوں بٹھانے“ کی رسم کی کوئی شرعی اصل نہیں، اس میں دلہن کو علیحدہ بٹھایا جاتا ہے اور کسی کو اس سے ملاقات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔لہذا اس کو ضروری سمجھنا اور محارِمِ شرعی تک سے پردہ کرادینا نہایت بے ہودہ بات ہے۔اسی طرح لڑکی کو مہندی لگانا تو بُرائی نہیں، لیکن اس کے لیے تقریبات منعقد کرنا اور لوگوں کو دعوتیں دینا، جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شوخ رنگ اور بھڑکیلے لباس پہن کر بے محابا ایک دُوسرے کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی کا مرقع ہے۔ مہندی کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، یہ بھی  جاہلیت کی رسم  ہے، نیز ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحۃً ممانعت وارد ہے ۔ ارشادِ خداوندی ہے : 
﴿وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا  اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ  وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّه کَفُوْرًا﴾ ( بنی اسرائیل : ۲۶-۲۷ ) 
اور ( اپنے مال کو فضول اور بے موقع ) مت اُڑاؤ ، یقیناً بے جا اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ۔ 
اِسی بنا پر پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : 
"إِنَّ أَعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَةً أَیْسَرُه مَؤنَةً". ( مشکاة شریف ۲ ؍ ۲۶۸ ) 
یعنی سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو ۔ 
جب شریعت کا حکم اسراف وتبذیر سے بچنے کا اور نکاح کو آسان بنانے کا ہے ، تو ہمارے ہاں نکاح کی تقریبات جن میں کھل کر فضول خرچیاں ہوتی ہیں اور احکامِ شریعت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ، اُن سے پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی خوشی کیسے نصیب ہوسکتی ہے ؟ 
اور جس تقریب سے اللہ اور رسول راضی نہ ہوں ، تو اگر اس سے پوری دنیا بھی خوش ہوجائے ، اس تقریب میں برکت نہیں آسکتی ، اس کے برخلاف جس تقریب سے اللہ اور اس کے پیغمبر خوش ہوں تو وہی بابرکت ہوگی اگرچہ پوری دنیا ناراض ہوجائے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

رخصتی کیسے کی جائے؟

اس سلسلے میں ان  کتب کا مطالعہ مفید ہے۔

اسلامی شادی، از حضرت مولانا مفتی محمد زید مظاہری ندوی

تحفۃ النکاح، از حضرت مولانا محمد ابراہیم پالن پوری

 نیز سال گرہ منانے کا  بھی شرعاً   کوئی ثبوت نہیں ہے، بلکہ یہ موجودہ زمانہ  میں اغیار کی طرف سے آئی ہوئی ایک رسم ہے، جس میں عموماً طرح طرح کی خرافات شامل ہوتی ہیں، مثلاً: مخصوص لباس پہنا جاتا ہے، موم بتیاں لگاکر کیک  کاٹا  جاتا ہے، موسیقی  اور مرد وزن کی مخلوط محفلیں ہوتی ہیں ، تصویر کشی ہوتی اور پھر ان میں غیر اقوام کی نقالی بھی ہوتی ہے، اور یہ سب امور ناجائز ہیں،  لہذا مروجہ طریقہ پر سالگرہ منانا شرعاً جائز نہیں ہے۔

ہاں اگر اس طرح کوئی خرافات نہ ہوں اور نہ ہی کفار کی مشابہت مقصود ہو ، بلکہ  گھر والے اس مقصد کے لیے اس دن کو یاد رکھیں کہ  رب کے حضور اس بات کا شکرادا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے عافیت وصحت اور عبادات کی توفیق کے ساتھ زندگی کا ایک سال مکمل فرمایا ہے اور اس کے لیے اگر  منکرات سے خالی کوئی تقریب رکھ لیں یا گھر میں بچے کی خوشی کے لیے کچھ بنالیں یا  باہر سے لے آئیں تو اس کی گنجائش ہوگی، تاہم احتیاط بہتر ہے۔

مزید تفصیل کے لیے منسلکہ لنک پر موجود فتوی کا ملاحظہ کریں: 

http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D8%B3%D8%A7%D9%84%DA%AF%D8%B1%DB%81-%D9%85%D9%86%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AA%D8%B4%D8%A8%DB%81-%D8%A8%D8%A7%D9%84%DA%A9%D9%81%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%D8%AA-2/22-08-2017

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 143909201475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں