بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی كے لیےوالدين كو مجبور كرنا


سوال

میری عمر قریب 30 سال ہونے والی ہے اور میں گناہوں سے بچنے کے لیے نکاح کرنا چاہتا ہوں، لیکن گھر والے دیر کرنا چاہتے ہیں، کیا میں شرعی طریقے سے بس نکاح کے لیے مجبور کر سکتا ہوں والدین کو کیوں کہ دنیاوی رسومات کی وجہ سے اخراجات ہوتے  ہیں، شاید اس وجہ سے والدین ابھی صبر کا بول رہے، لیکن میں اور صبر نہیں کر سکتا،  مجھے لگتا ہے میں گناہوں میں مبتلا ہوجاؤں گا تو کیا میں تھوڑی بہت ناراضی کا اظہار کر کے مجبور کر سکتا ہوں والدین کو یا نہیں؟

جواب

والدین کا اولاد پر بڑاحق ہوتا ہے، والدین کی اطاعت  اور ان کی  بات ماننے میں ہی خیر ہے۔  شریعت میں والدین کو "اُف" تک کہنے کی ممانعت ہے، چہ جائے کہ کوئی سخت جملہ کہنا یا  ناراضی کا اظہار کرنا ؛ لہذا شادی کے لیے والدین کو ناراض کرنا اور ان سے لڑنا  جھگڑنا کسی طور پر درست نہیں ہے، البتہ آپ ان کے اَدب کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب انداز میں شادی کی بات کریں  یا  والدین کے کسی قریبی یا بزرگ شخص کے  ذریعہ   اپنی شادی کے لیے والدین کو قائل کریں، والدین کو بھی چاہیے کہ شادی میں فضول رسموں  اور فضول خرچیوں سے اجتناب کرتے ہوئے نہایت سادگی کے ساتھ آپ کی شادی کروائیں  کم خرچ والی شادی کو ہی نبی کریم ﷺ نے  خیر وبرکت  والی شادی قرار دیا  ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے :

{ وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا۞}[الإسراء: 23]

ترجمه: "اور حكم كرچكا تيرا رب كه نہ پوجو اس كے سوا کسی کو اور ماں باپ كے   ساتھ بھلائی کرو اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک ان میں سے یا دونوں تو نہ کہہ ان کو  "ہُوں" اور نہ جھڑک ان کو اور کہہ ان سے بات ادب کی۔"

اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں  :

"امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے والدین کے ادب واحترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے جیسا کہ سورۃ لقمان میں اپنے لشکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے {اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ} (یعنی میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گزار ہونا واجب ہے، صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے جس میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نماز اپنے وقت (مستحب) میں اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا سلوک (قرطبی)۔" 

 (معارف القرآن5/462)

حدیث شریف میں ہے:

"قال النبيﷺ: إن أعظم النكاح بركةً أيسره مؤنةً." 

 (مشكوة المصابيح  2/276)

ترجمہ: رسولِ كريم صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: "بلا شبه بهت زياده بركت والا نكاح وه هے جو محنت (خرچه)كے لحاظ سے آسان هو۔

اور اگر آپ کے پاس بیوی کے مہر اور نان نفقے کا انتظام نہ ہو یا جب تک والدین راضی نہ ہوں اور آپ کے لیے حیا داری اور اسلامی احکام کی رعایت رکھتے ہوئے نکاح ممکن نہ ہو، کثرت سے نفلی روزے رکھنے کا اہتمام کریں، حدیثِ مبارک میں ہے کہ جو نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیے؛ کیوں کہ یہ نگاہوں کے جھکاؤ اور شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ 

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144201200606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں