بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی بیاہ کے موقع پر تحائف کے لین دین کا حکم


سوال

آج کل جو شادیوں میں برتن یا پھر ساڑھی، رومال وغیرہ دیے جاتے ہیں،  یہ لے سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب

شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر تحائف کا لین دین جائز ہے،  بشرطیکہ یہ لین دین طیبِ نفس (یعنی دل کی خوشی) سے ہو، فخر و ریا کے طور پر  اور عار  سے بچنے کے  لیے نہ ہو ، رسول اللہ ﷺ نے حضرت  زینب  رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو حضرت ام سلیم  رضی اللہ عنہا نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ہدیہ دے کر بھیجاتھا، لہٰذا  شادی کے موقع پر دولہا/ دلہن کو اپنی استطاعت کے مطابق تکلف کے بغیر خوشی سے تحفے تحائف دینا جائز ہے۔ البتہ اس معاملے میں حد سے تجاوز کرنا اور اسے لازم سمجھ کر اور اپنے ہاں شادی کے موقع پر واپس وصول کرنے کی نیت سے لینا دینا اور نہ دینے والے پر طعن و تشنیع یا اس کے بارے میں برے جذبات دل میں لانا، ان امور سے اجتناب کرنا چاہیے۔ الغرض منفی جذبات اور منکرات کی اصلاح کی جائے، نفسِ ہدیہ کا لین دین نہ صرف پسندیدہ ہے، بلکہ جانبین میں محبت بڑھانے کا بھی ذریعہ ہے۔

آج کل شادی بیاہ کے موقع پر تحائف کا لین دین رسم و رواج بننے کی وجہ سے بعض اوقات شرعی مفاسد کا ذریعہ  بن جاتا ہے، اس  لیے جہاں اس بات کا اندیشہ ہو، وہاں کوشش کرنی  چاہیے کہ  خاص شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر ہی تحائف کے لین دین کو رواج نہ دیا جائے، بلکہ کبھی عام اوقات اور کبھی شادی  بیاہ کے موقع پر تحائف کے لین دین کی عادت بنانی چاہیے ۔

صحيح البخاري (7/ 22):

"و قال إبراهيم: عن أبي عثمان واسمه الجعد، عن أنس بن مالك، قال: مر بنا في مسجد بني رفاعة، فسمعته يقول: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا مر بجنبات أم سليم دخل عليها فسلم عليها، ثم قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم عروساً بزينب، فقالت لي أم سليم: لو أهدينا لرسول الله صلى الله عليه وسلم هديةً، فقلت لها: افعلي، فعمدت إلى تمر وسمن وأقط، فاتخذت حيسةً في برمة، فأرسلت بها معي إليه، فانطلقت بها إليه، فقال لي: «ضعها» ثم أمرني فقال: «ادع لي رجالا - سماهم - وادع لي من لقيت»، قال: ففعلت الذي أمرني، فرجعت فإذا البيت غاص بأهله، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يديه على تلك الحيسة وتكلم بها ما شاء الله، ثم جعل يدعو عشرةً عشرةً يأكلون منه، ويقول لهم: «اذكروا اسم الله، وليأكل كل رجل مما يليه»."

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 151):

"و فيه فوائد: الأولى: كونه أصلاً في هدية العروس. وكان الإهداء، قديماً فأقرها الإسلام. الثانية: كونها قليلةً فالمودة إذا صحت سقط التكلف، فحال أم سليم كان أقل. الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة. الرابعة: دعاء الناس إلى الوليمة بغير تسمية ولا تكلف وهي السنة. الخامسة: فيه معجزة عظمى دعى الجمع الكثير إلى شيء قليل، ووقع في رواية مسلم: أنهم كانوا زهاء ثلاثمائة. السادس: لطفه صلى الله عليه وسلم وحياؤه الغريز حيث كان يدخل ويخرج ولا يقول لمن كان جالسا: اخرج. السابعة: فيه الصبر على أذى الصديق۔ الثامنة: من سنة العرس إذا فضل عنده طعام أن يدعو له من خف عليه من إخوانه، فيكون زيادة إعلان بالنكاح. التاسعة: فيه التسمية على الأكل. العاشرة: السنة الأكل مما يليه."

سنن الترمذي ت شاكر (4/ 441):

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «تهادوا فإن الهدية تذهب و حر الصدر، و لاتحقرن جارة لجارتها ولو شق فرسن شاة»: هذا حديث غريب من هذا الوجه وأبو معشر اسمه نجيح مولى بني هاشم وقد تكلم فيه بعض أهل العلم من قبل حفظه."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں