کیا کسی بھی بنک اکاؤنٹ میں رقم پر جو منافع جس کو سود سے تعبیر کیا جاتا ہے اس منافع سے کسی ضرورت مند فرد کی مدد کی جا سکتی ہے؟ اور کس حد تک؟ یا نہیں؟ یا کسی ادارے کو دینا صحیح ہوگا؟
بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے پر بینک کی طرف سے جو منافع ملتا ہے وہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے،اور جس طرح سودی رقم کا استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح سودی رقم کو وصول کرنا بھی حرام ہے، نیز بینک کی طرف سے اکاؤنٹ میں یہ رقم ڈالے جانے کے باوجود آدمی اس سودی رقم کا مالک نہیں بنتا ہے ، چناں چہ کسی بھی صورت اس سودی رقم کا اکاؤنٹ سے نکلوانا اور وصول کرنا ہی جائز نہیں ہے، چاہے اپنے استعمال کی نیت ہو یا کسی ضرورت فرد یا ادارے کو دینے کی نیت ہو۔
البتہ اگر کسی شخص کو مسئلہ معلوم نہ تھا اور اس نے یہ رقم وصول کر لی ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ پہلے تو وہ یہ کوشش کرے کے جہاں سے یہ سودی رقم لی ہے اسی کو واپس کردے، لیکن اگر باوجود کوشش کے اسی شخص یا ادارے کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو پھر کسی ضرورت مند مستحقِ زکاۃ غریب شخص کو یہ رقم ثواب کی نیت کے بغیر دے دے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200364
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن