ایک گاؤں کی جامع مسجد دریا کے کٹاؤ میں کٹ کر شہید ہوگئی ، لوگوں نے دوسری جگہ جامع مسجدتعمیر کرلی، پھر کچھ سالوں کے بعد پرانی مسجد کی جگہ دریا کی زد سے باہر آگئی تو کیا اس پرانی مسجد کو مسجد جامع کی شکل دی جائے گی یا وہ پنج وقتہ کےلیے تشکیل دی جائے گی، جب کہ صورت یہ ہے کہ اب وہاں آس پاس میں اتنی آبادی نہیں ہے، اور سیلاب کے وقت وہاں جانے میں بھی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں جب پرانی مسجد دریا کی زد سے باہر آگئی تو اس کا حکم اب بھی مسجد کا ہی ہے ، اور وہاں کے آس پاس میں رہنے والے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کو دوبارہ سے آباد کریں، البتہ جمعہ کا قائم کرنا وہاں ضرورری نہیں ہے، اگر نئی تعمیر شدہ مسجد میں جمعہ کی ادائیگی لوگوں کے لیے زیادہ سہولت کا باعث ہے تو وہیں جمعہ کا اہتمام کریں، پرانی مسجد کو پنج وقتہ نمازوں سے آباد کریں۔
وفي البحر الرائق لابن نجیم:
"وقال أبو يوسف: هو مسجد أبدًا إلى قيام الساعة لايعود ميراثًا ولايجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا، وهو الفتوى، كذا في الحاوي القدسي. وفي المجتبى: وأكثر المشايخ على قول أبي يوسف، ورجح في فتح القدير قول أبي يوسف بأنه الأوجه ... الخ"
(کتاب الوقف ،فصل لما اختص المسجد، ج:۵، ص:۲۷۲،ط:دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200599
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن