بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سیر وتفریح کے لیے گرونانک گردوارہ جانا


سوال

سیر وتفریح کے لیے گرونانک جانا کیسا ہے؟

جواب

وہ مقامات جہاں غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہے، یا کفار اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرتے ہیں، چوں کہ یہ مقامات معصیت کا گڑھ اور شیطان کی آماج گاہ ہوتے ہیں، اس وجہ سے ان مقامات پر جانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، فقہاءِ  کرام نے ایسے شخص کو تعزیری سزا کا مستحق قرار دیا ہے جو کفار کی عبادت گاہ  مستقل جاتاہو۔

حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کا مندروں،  چرچ ، گردوارہ اورکفار کی دیگر عبادت گاہوں میں جانا جائز نہیں ہے، لہذا سیر وسیاحت کے لیے گرونانک جانا جائز نہیں ہے۔

امداد الفتاوی میں ہے :

”میلۂ پرستش گاہِ ہنود میں عموماً مسلمانوں کا جانا اور خصوصاً علماء کا جانا  اور  یہ بھی نہیں کہ کوئی ضرورتِ شدیدہ دنیاوی ہی ہو، محض سیر وتماشے کے لیے، سخت ممنوع و قبیح ہے ۔۔۔  ممانعت ایسی جگہ جانے سے دوسری آیت سے ثابت ہے: {فلاتقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين}  یعنی بعد نصیحت کے قومِ ظالمین کے پاس مت بیٹھ ، یعنی کفار سے اختلاط مت کر، اور حدیث میں ہے: ”من كثر سواد قوم فهو منهم“. (جو کسی جماعت کی تعداد بڑھائے اس کا شمار اُن ہی میں سے ہے) اور حدیثِ صحیح میں آیا ہے کہ قربِ قیامت میں ایک لشکر کعبہ معظمہ کے ارادہ سے چلے گا، جب قریب پہنچیں گے تو سب زمین میں دھنس جائیں گے، ازواجِ مطہرات میں سے ایک بی بی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ  اس میں تو بازاری دکان دار لوگ بھی ہوں گے کہ ارادہ لڑنے کا نہ رکھتے ہوں گے،  ان کا کیا قصور ؟ آپ ﷺ نے فرمایا  کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب  عام آتا ہے، اس وقت دھنس جائیں گے، پھر قیامت کے روز اپنی اپنی نیت کے موافق محشور (جمع) ہوں گے۔انتہیٰ۔

پس جب یہ لوگ باوجودیکہ ضرورتِ تجارت کے بسبب ان کے ساتھ شامل ہوں گے، عذابِ الٰہی سے نہ بچ سکیں گے تو جس کو یہ بھی ضرورت نہ ہو وہ کیوں کر اس غضب وعتاب سے جو مجمعِ کفار میں من اللہ نازل ہواکرتا ہے محفوظ رہے گا“۔(4/270، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

البحر الرائق میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَلَايَحْلِفُونَ فِي بُيُوتِ عِبَادَتِهِمْ)؛ لِأَنَّ الْقَاضِيَ لَايَحْضُرُهَا بَلْ هُوَ مَمْنُوعٌ عَنْ ذَلِكَ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ، وَلَوْ قَالَ: الْمُسْلِمُ لَايَحْضُرُهَا لَكَانَ أَوْلَى؛ لِمَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة: يُكْرَهُ لِلْمُسْلِمِ الدُّخُولُ فِي الْبِيعَةِ وَالْكَنِيسَةِ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ حَيْثُ إنَّهُ مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ، لَا مِنْ حَيْثُ إنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّهَا تَحْرِيمِيَّةٌ؛ لِأَنَّهَا الْمُرَادَةُ عِنْدَ إطْلَاقِهِمْ، وَقَدْ أَفْتَيْت بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ". ( ٧ / ٢١٤،ط: دار الكتاب الاسلامي)

مجمع الأنهر في شرح ملتقی الأبحرمیں ہے:

"(وَلَا يَحْلِفُونَ) أَيْ الْكُفَّارُ (فِي مَعَابِدِهِمْ) ؛ لِأَنَّ فِيهِ تَعْظِيمًا لَهَا وَالْقَاضِي مَمْنُوعٌ عَنْ أَنْ يَحْضُرَهَا وَكَذَا أَمِينُهُ؛ لِأَنَّهَا مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ لَا أَنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ. وَفِي الْبَحْرِ وَقَدْ أَفْتَيْتُ بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى". ( ٢ / ٢٦٠، ط: دار احياء التراث العربي)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں