بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سید شخص کی شیخ بیوی کو زکات دینا


سوال

 ایک خاتون جن کے شوہر بیمار اور بےروزگار ہیں اور ان کے تین بچے ہیں، کچھ عرصے قبل تک ان کے شوہر تھوڑا بہت کام کرلیا کرتے تھے جس سے گزر اوقات ہو جاتی تھی،  شوہر کے علاج اور بچوں کی پیدائش پر ہونے والے آپریشن کی وجہ سے جو جمع پونجی اور زیورات تھے سب ختم ہو گئے، خاتون کے شوہر کا ایک مکان اپنا ہے جوکہ ان کو والد صاحب کی طرف سے ملا تھا، اس وراثت میں مزید ان کے سات بھائی اور دو بہنیں حصہ دار ہیں، ان کے بھائیوں سے گھر کی غیر شرعی تقسیم کی بنا  پر اختلافات ہو گئے، جس پر ان کے بھائیوں نے مختلف حیلے کر کے ان کو گیارہ سال قبل گھر سے نکال  دیا اور کچھ معمولی رقم دے کر گھر کے  معاملہ سے الگ ہونے کا کہا، اس غیر شرعی تقسیم کی وجہ سے انہوں نے رقم لینے سے انکار کر دیا اور گھر کا معاملہ اپنے شیخ سے مشورہ کے بعد اللہ پر چھوڑ دیا اور گھر سے نکل گئے ، معاشی مسائل کے حل کے لیے خاتون نے مختلف کام مثلاً سلائی، ٹیوشن اور کھانے پکا کر گزر بسر کی،  بڑے دو بچے اسکول جانے کے قابل ہوئے تو خاتون نے ایک دینی تعلیمی ادارے میں ملازمت کرلی، گزشتہ آٹھ سال سے جاری اس جاب کے دوران ایک بچے کی ولادت ہوئی اور مسلسل ذہنی پریشانی کے سبب خاتون انجائنا کی مریضہ ہو گئیں اور دو بار انجیوگرافی بھی کروانی پڑی،  کرائےکے مکان ، علاج اور بچوں کے اخراجات کے باعث تنخواہ میں جو کہ 22 ہزار روپے ہے،  مزید کچھ اوورٹائم اور ادارے کی طرف سے ملنے والے الاؤنس کے بعد کل رقم ماہانہ 34000 بنتی ہے،  گزارہ بمشکل ہوتا ہے،  خاتون کے شوہر سید ہیں اور خاتون شیخ ہیں اور ان کے پاس استعمال کردہ سامان کے علاوہ کوئی جمع پونجی نہیں، شوہر کے گھر کے بارے اوپر تفصیل موجود ہے، آپ سے سوال یہ ہے کہ خاتون کی مدد زکات کی مد میں کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتیں، لیکن ان سے تعلقات کے بعد ان کے حالات کا علم بھی ہوا اور ذاتی طور پر مشاہدہ بھی کیا !

جواب

مذکورہ شیخ خاتون کے پاس  اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ مالیت کا ضرورت  و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا مال (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت یا ان میں سے بعض یا سب سے مخلوط مال) یا سامان (کوئی بھی سامان جو ضرورت و استعمال سے زائد ہو)  نہ ہو ،  تو ان کو زکات دے سکتے ہیں ۔

الفتاوى الهندية (1/ 189):

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان، دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة، فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي. والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء؛ إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي ... و لايدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية. ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم،كذا في السراج الوهاج".

فقط واللہ اعلم

نوٹ: یہ مسئلے کا  جواب اور  فتویٰ ہے، کسی مخصوص فرد کے لیے تصدیق نہیں ہے۔


فتوی نمبر : 144104200214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں