بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

"سہلہ رباب" نام رکھنا


سوال

میں اپنی بیٹی  کا نام  "سہلہ رباب"   رکھنا  چاہتا  ہوں،  صحابیات کے نام پر۔ لیکن لاہور کے ایک مدرسہ کے مفتی صاحب کی بہن جو میری اہلیہ کی دوست ہیں،  نے بتایا کہ مفتی صاحب نے اُن کو  ( اپنی بہن کو)اپنی بیٹی کا یہ نام رکھنے سے منع کیا، اُس کی وجہ یہ بتائی کہ "سہلہ"  نام کی صحابیہ بہت بیمار رہتی تھیں۔ کیا "سہلہ"  نام رکھنے میں کوئی حرج ہے؟ میں "سہلہ" اور "رباب"  دونوں اکٹھے رکھنا چاہتا ہوں، ایک تو یہ وجہ ہے کہ کاغذات میں ہمیشہ  نام ایسا  ہی  رہے گا اور  خاندان  میں کسی کو   "رباب"  زیادہ پسند ہے  اور  کسی کو "سہلہ"۔ راہ نمائی فرمائیں!

جواب

صحابہ اور  صحابیات رضی اللہ عنہم و عنہن کے نام میں اصول یہ  ہے کہ ان کے ناموں میں سے جو نامناسب تھے  وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  تبدیل فرمادیے تھے۔اور  جن ناموں کو تبدیل نہیں فرمایا تو  وہ نام تاقیامت درست  ہیں۔  اس  واسطے  "سهلہ" نام رکھنا بلا شبہ  درست اور  جائز  ہے۔ باقی کسی کی بیماری کا تعلق اس کے نام سے ہرگز نہیں۔ نام کا انسان کی شخصیت پر تو اثر ہوتا ہے، صحت اور بیماری اللہ پاک کی طرف سے ہے، کوئی بھی بیماری کسی بھی نام والے کو بھی لگ سکتی ہے۔

"رباب"یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جو حرف"ر"کے زبر،زیر اور پیش کے ساتھ ( تینوں طرح )استعمال ہوتاہے۔

اگر "رَباب"ر کے زبر کے ساتھ ہوتو اس کے معنی ہیں :سارنگی کی مانند ایک باجہ، سفید بادل،مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ کانام۔نیز "رَباب"ر کے فتحہ کے ساتھ ایک صحابیہ کا اسم گرامی بھی ہے، لہذا اس مناسبت سے یہ نام رکھاجاسکتاہے۔

اور اگر "رِباب"ر کی زیر کے ساتھ اس کے معنی ہیں : عہد،میثاق، دوست، دس دس افراد کی جماعتیں،بکری کا بچہ جننے کے قریب ہونا۔ 

بعض درست معانی کے اعتبار سے "رِباب"ر کے کسرہ کے ساتھ نام رکھاجاسکتاہے۔

اور اگر "رُباب"ر کے پیش کے ساتھ ہوتو اس کے معنی ہیں :وہ بکریاں جنہوں نے ابھی بچے جنے ہوں، عرب میں ایک جگہ کانام ہے۔

"رُباب"ر کے پیش کے  ساتھ نام رکھنا  اگرچہ جائز ہوگا، لیکن مناسب معلوم نہیں ہوتا۔

"بَابُ رَبَابٍ، ورُبَابٍ ، أما اْلأَوَّلُ: - بِفَتْحِ الراء بَعْدَهَا باء مُوْحَّدَة، وفي آخره مثلها - : مَوْضِعٌ عند بئر ميمون مَكَّة.وجبل بين المدينة وفيد على طريق كان يسلك قديماً يذكر مع جبل آخر يُقَالُ له خولة مقابل له وهما عن يمين الطريق ويساره.وأما الثَّاني: - بِضَمِّ الراء والباقي نحو اْلأَوَّلُ - : أرض بين دِيَارِ بني عامر وبلحارث بن كعب".

(الأماکن لأبي بکر محمدبن موسی الحازمی ، 1/59)

"والرُبَّى بالضم على فُعْلَى: الشاةُ التي وضَعَتْ حديثاَ، وجمعها رُبابٌ بالضم والمصدر رِبابٌ بالكسر، وهو قُرْبُ العَهْدِ بالولادة، تقول: شاةٌ رُبَّى بَيِّمَةُ الرِبابِ، وأَعْنُزٌ رِبابٌ". (1/235)

"-الرُّبَّة - الفِرْقة من الناس وجمعه رِبَاب". (المخصص لابن سیدہ، 1/317)

"قال أَبو عليَ الفارسي : أَرِبَّةٌ : جَمْعُ  رِبَابٍ ، وهو العَهْدُ". (2/467)

"( والرَّبَابُ ) بالفَتْحِ ( : السَّحَابُ الأَبْيَضُ )". (تاج العروس 2/471)

"رباب بالضم نادر تقول أعنز رباب والمصدر رباب بالكسر وهو قرب العهد بالولادة". (لسان العرب، م1/403)

"والرُّبّى: الشّاةُ الحَدِيْثَةُ النِّتَاجِ، والجَمِيْعُ رُبَابٌ ورِبَابٌ". (المحیط في اللغة، 2/427)

الاصابہ میں ہے :

"الرباب بنت النعمان بن امرئ القيس بن عبد الأشهل الأنصارية الأشهلية والدة معاذ بن زرارة الظفري ذكرها بن حبيب أيضا وقال بن سعد هي عمة سعد بن معاذ وكان تزوجها زرارة بن عمرو بن عدي الأوسي فولدت له معاذا وخلف عليها المعرور بن صخر فولدت له الرباب وأسلمت الرباب وبايعت". (7/639)

الطبقات الکبریٰ میں ہے :

"الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورِ ابْنِ صَخْرِ بْنِ خَنْسَاءَ بْنِ سِنَانِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ غَنْمِ بْنِ كَعْبِ بْنِ سَلَمَةَ وَأُمُّهُ الرَّبَابُ بِنْتُ النُّعْمَانِ بْنِ امْرِئِ الْقَيْسِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ الأَشْهَلِ بْنِ جُشَمَ بْنِ الأَوْسِ". (3/618)

وفیه أیضاً:

"الرَّبَابُ بِنْتُ النُّعْمَانِ بْنِ امْرِئِ الْقَيْسِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ الأَشْهَلِ وَأُمُّهَا مُعَاذَةُ بِنْتُ أَنَسِ بْنِ قَيْسِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ وَهُمْ بَنُو حُدَيْلَةَ ، وَالرَّبَابُ بِنْتُ النُّعْمَانِ هِيَ عَمَّةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَتَزَوَّجَتِ الرَّبَابُ بِنْتُ النُّعْمَانِ زُرَارَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ وَهُوَ ظُفُرُ بْنُ الْخَزْرَجِ بْنِ عَمْرٍو وَهُوَ النَّبِيتُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الأَوْسِ , فَوَلَدَتْ لَهُ مُعَاذَ بْنَ زُرَارَةَ وَهُوَ أَبُو أَبِي نَمْلَةَ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ خَلَفَ عَلَى الرَّبَابِ مَعْرُورُ بْنُ صَخْرِ بْنِ خَنْسَاءَ بْنِ سِنَانِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ غَنْمِ بْنِ كَعْبِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ الْخَزْرَجِ فَوَلَدَتْ لَهُ الْبَرَاءَ بْنَ مَعْرُورٍ وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ الْاثْنَيْ عَشَرَ وَمَاتَ الْبَرَاءُ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ رَسُولُ اللَّهِ الْمَدِينَةَ فِي الْهِجْرَةِ . فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ . وَأَسْلَمَتِ الرَّبَابُ بِنْتُ النُّعْمَانِ وَبَايَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". (8/315)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں