بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سپر مارکیٹ سے کسٹمر یا ملازم کے چوری کرنے پر جرمانہ لگانا


سوال

میں ایک سپر مارکیٹ میں کام کرتا ہوں ، یہاں پر اگر کوئی کسٹمر چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اس سے  مال کی تین گنا قیمت وصول کی جاتی ہے، اور اس سے مال بھی ضبط کرلیا جاتا ہے، مزید  اس کی اصلاح کے لیے اس کے ساتھ تشدد بھی کیا جاتا ہے، جیسے مارپیٹ وغیرہ،  تاکہ اس کی دوبارہ یہ حرکت کرنے کی ہمت نہ ہو، اس  طرح اگر کمپنی کا کوئی  ملازم چوری کے کیس میں پکڑا جاتا ہے تو اس کی تنخواہ ضبط کرلی جائے  اور اس کو نوکری سے بھی نکال دیا جاتا ہے۔

سوال عرض یہ ہے کہ اس سارے معاملہ میں شریعت کی کوئی خلاف ورزی تو نہیں ہے،  اگر ہورہی ہے تو  نشان دہی فرمادیجیے، اور اصلاح بھی فرمادیجیے، یہ ساری صورت ہماری مجبوری ہے، اس طریقے سے حاصل ہونے والی ساری رقم ہم بغیر ثواب کی نیت سے غرباء کو دیتے ہیں ،  راہ نمائی فرمادیں؟

جواب

چوری اگر شرعی شرائط کے مطابق ثابت ہوجائے تو اس کی سزا کا اختیار اسلامی حکومت کو ہے، اسی طرح  جرائم پر تعزیراً  سزا دینے کا اختیار بھی ہرکس وناکس کو نہیں ہے، اگر جرائم پر ہر ایک کو سزائیں  دینے کا اختیار ہوتو پورا نظام فساد کا شکار ہوجائے گا، اسی طرح کسی پر مالی جرمانہ  لگانا یا  کسی کی خوشی وررضا کے بغیر اس سے مال لینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں  اگر کوئی کسٹمر چوری کرتا ہے تو آپ حضرات ان سے صرف اپنا چوری شدہ مال واپس لے سکتے ہیں، باقی اس کے علاوہ جرمانہ لینا یا سزائیں دینا درست  نہیں ہے، بلکہ اسے سرکارکے حوالہ کردیا جائے یا معاف کرکے اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔

اور اسی طرح اگر کوئی  کمپنی کا ملازم چوری کرے تو اس سے چوری شدہ مال لینے کا تو حق ہے، لیکن اس کی پوری تنخواہ ضبط کرنا شرعاً ناجائز ہے، ہاں  کمپنی میں ضابطہ اخلاق  وانتظام کو برقرار رکھنے کے وجہ سے ایسے ملازم کو نوکری سے برطرف کرنے کا  کمپنی کو پورا حق حاصل ہے۔

مالی جرمانہ لگانا ہی ناجائز  اور حرام ہے، اگر لگالیا تو اب اس کو اصل مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، مالک کے موجود ہوتے ہوئے اسے صدقہ  وغیرہ کرنے سے ذمہ بری نہیں ہوگا۔

       شرح المجلۃ میں ہے:

"لایجوز لأحد  أن یأخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".  (1/264،  مادۃ: 97، ط: رشیدیہ)

         البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل: أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".(5/41، فصل فی التعزیر،  ط: سعید) فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 143909201783

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں