بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کی ادھار خرید و فروخت کرنے والے کے ہاں کھانا پینا اور اس کمائی سے خریدے گئے مکان کا حکم


سوال

 میرے بھائیوں کا سونے چاندی کا کاروبار ہے ،اس میں سونے سے سونا ادھار بھی خرید و فروخت کیا جاتا ہے، کیا اس طرح  کی خرید و فروخت جائز ہے؟ اگر نہیں تو کیا ان کے یہاں کھانا پینا درست ہوگا اور اس کاروبار کے پیسے سے خریدے گئے مکان میں رہنا درست ہے؟

 

جواب

شرعی اعتبار سے سونے چاندی کی ادھار خرید و فروخت جائز نہیں ہے، اگر آپ کے بھائی حلال آمدن سے دعوت کریں تو اس میں شریک ہونا اور کھانا کھانا جائز ہوگا اور اگر حرام آمدن سے دعوت کریں تو اس میں شریک ہونے کی تو گنجائش ہوگی، البتہ کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا، اور  یہی حکم خریدے گئے مکان کا بھی ہوگا۔ 

الدر المختار شرح تنوير الأبصار (5 / 257):

"(و يشترط) عدم التأجيل والخيار و ( التماثل )أي التساوي وزنا ( والتقابض ) بالبراجم لا بالتخلية ( قبل الافتراق ) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح ( إن اتحدا جنسا وإن ) وصلية ( اختلفا جودة وصياغة ) لما مر في الربا."

الفتاوى الهندية - (43 / 320):

"(الْبَابُ الثَّانِي عَشَرَ فِي الْهَدَايَا وَالضِّيَافَاتِ ) أَهْدَى إلَى رَجُلٍ شَيْئًا أَوْ أَضَافَهُ إنْ كَانَ غَالِبُ مَالِهِ مِنْ الْحَلَالِ فَلَا بَأْسَ إلَّا أَنْ يَعْلَمَ بِأَنَّهُ حَرَامٌ ، فَإِنْ كَانَ الْغَالِبُ هُوَ الْحَرَامَ يَنْبَغِي أَنْ لَا يَقْبَلَ الْهَدِيَّةَ ، وَلَا يَأْكُلَ الطَّعَامَ إلَّا أَنْ يُخْبِرَهُ بِأَنَّهُ حَلَالٌ وَرِثْتُهُ أَوْ اسْتَقْرَضْتُهُ مِنْ رَجُلٍ ، كَذَا فِي الْيَنَابِيعِ .

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (5 / 235):

"مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه  قوله ( اكتسب حراما الخ ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول وإليه ذهب الفقيه أبو الليث لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير إذا غصب ألفًا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح وقال الكرخي: في الوجه الأول و الثاني لايطيب وفي الثلاث الأخيرة يطيب  وقال أبو بكر: لايطيب في الكل لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعًا للحرج عن الناس ا هـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں