بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوشل میڈیا پر فحش تصاویر اور ویڈیو شیئر کرنا


سوال

آج کل اکثر دوست احباب مذاق میں گندی ویڈیو اور تصاویر مختلف سوشل میڈیا کے گروپ  میں بھیجتے ہیں، میں نے کئی دفعہ  منع بھی کیا ہے،  لیکن اثر نہیں ہوتا، اس حوالہ سے کوئی حدیث یا فتوی بتا دیں!

جواب

احادیثِ  مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی طرف راہ نمائی کرنے والا، اس راہ نمائی کی وجہ سے گناہ میں پڑ جانے والے کے ساتھ وبال میں شریک ہوتا ہے۔ نیز سوشل میڈیا پر کُھل کر گناہ اور فحاشی کی باتیں، تصاویر اور ویڈیو وغیرہ پھیلانا اس وجہ سے بھی خطرناک ہے کہ اللہ تعالی کو  کُھلے  عام گناہ کرنے والے پسند نہیں،  جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے  کہ  "میرا ہر امتی معاف کیا جاسکتا ہے، لیکن مجاہرین (اعلانیہ گناہ کرنے والے) معاف نہیں کیے جائیں گے۔لہٰذا جو سوشل میڈیا پر بری بات پھیلائے گا، جہاں تک وہ بات پہنچے گی اس کی اشاعت کے گناہ میں پہلا شخص بھی شریک ہوگا، یہاں تک کہ وہ سچی توبہ کرلے اور اپنے عمل سے باز آجائے، یہ بھی ملحوظ رہے کہ فحش ویڈیو یا تصویر سے قطع نظر کسی بھی جان دار کی تصویر یا ویڈیو بنانا، دیکھنا یا شیئر کرنا بھی جائز نہیں ہے، لہٰذا اگر ایسے لوگ منع کرنے کے باوجود باز نہ آئیں تو گروپ ایڈمن انہیں گروپ سے خارج کردے، یا انفرادی مکالمہ ہو تو ایسے افراد کا نمبر بلاک کیا جاسکتا ہے، یہ بات قطع تعلقی میں نہیں آئے گی۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (19) وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (20) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} (21)[النور: 19، 21]

ترجمہ:جو لوگ چاہتے ہیں کہ چرچا ہو بدکاری کا ایمان والوں میں ان کے  لیے عذاب ہے درد  ناک دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے،  اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت اور یہ کہ اللہ نرمی کرنے والا ہے مہربان تو کیا کچھ نہ ہوتا ،  اے ایمان والو ! نہ چلو قدموں پر شیطان کے اور جو کوئی چلے گا قدموں پر شیطان کے سو وہ تو یہی بتلائے گا بےحیائی اور بری بات،  اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت تو نہ سنورتا تم میں ایک شخص بھی کبھی،  لیکن اللہ سنوارتا ہے جس کو چاہے اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے ۔

تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل (2/ 495):

"{إن الذين يحبون أن تشيع الفاحشة فى الذين آمنوا} أي ما قبح جدا والمعنى يشيعون الفاحشة عن قصد الإشاعة ومحبة لها {لهم عذاب أليم فى الدنيا} بالحد ... {والآخرة} بالنار وعدها إن لم يتوبوا {والله يعلم} بواطن الأمور وسرائر الصدور  {وأنتم لا تعلمون} أي أنه قد علم محبة من أحب الإشاعة وهو معاقبه عليها."

تفسير البغوي - إحياء التراث (3/ 395):

"قوله تعالى: {إن الذين يحبون أن تشيع الفاحشة}، يعني يظهر و يذيع الزنا {في الذين آمنوا لهم عذاب أليم في الدنيا والآخرة}، يعني عبد الله بن أبي و أصحابه المنافقين، والعذاب في الدنيا الحد وفي الآخرة النار، {والله يعلم}، كذبهم و براءة عائشة وما خاضوا فيه من سخط الله، {و أنتم لا تعلمون}.

و لولا فضل الله عليكم ورحمته وأن الله رؤف رحيم، جواب ولولا محذوف يعني: لعاجلكم بالعقوبة، قال ابن عباس: يريد مسطحا وحسان بن ثابت وحمنة.

قوله: يا أيها الذين آمنوا لا تتبعوا خطوات الشيطان ومن يتبع خطوات الشيطان فإنه يأمر بالفحشاء، يعني بالقبائح من الأفعال، والمنكر، كل ما يكرهه الله،ولولا فضل الله عليكم ورحمته ما زكى، قال مقاتل: ما صلح. وقال ابن قتيبة: ما طهر، منكم من أحد، والآية على العموم عند بعض المفسرين، قالوا: أخبر الله أنه لولا فضله ورحمته بالعصمة ما صلح منكم أحد. وقال قوم: هذا الخطاب للذين خاضوا في الإفك، ومعناه: ما طهر من هذا الذنب ولا صلح أمره بعد الذي فعل، وهذا قول ابن عباس في رواية عطاء، قال: ما قبل توبة أحد منكم، أبدا ولكن الله يزكي، يطهر، من يشاء، من الذنب بالرحمة والمغفرة، والله سميع عليم".

قرآنِ کریم میں ہے:

{وَاللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَنْ تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا (27)}[النساء: 27]

ترجمہ:  اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر متوجہ ہو وے اور چاہتے ہیں وہ لوگ جو لگے ہوئے ہیں اپنے مزوں کے پیچھے کہ تم پھر جاؤ راہ سے بہت دور ۔

تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل (1/ 351):

"{الذين يتبعون الشهوات أن تميلوا ميلا عظيما} وهو الميل عن القصد والحق و لا ميل أعظم منه بمساعدتهم وموافقتهم على اتباع الشهوات".

تفسير البغوي - إحياء التراث (1/ 601):

"ويريد الذين يتبعون الشهوات أن تميلوا، عن الحق، ميلا عظيما بإتيانكم ما حرم عليكم.

واختلفوا في الموصوفين باتباع الشهوات، فقال السدي: هم اليهود والنصارى، وقال بعضهم: هم المجوس لأنهم يحلون نكاح الأخوات وبنات الأخ والأخت، وقال مجاهد: هم الزناة يريدون أن تميلوا عن الحق فتزنون كما يزنون، وقيل: هم جميع أهل الباطل.

يريد الله أن يخفف عنكم، يسهل عليكم أحكام الشرع، وقد سهل كما قال جل ذكره: ويضع عنهم إصرهم [الأعراف: 157] ع «570» وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «بعثت بالحنيفية السمحة السهلة»".

شرح مسند أبي حنيفة (1 / 589):

"والديلمي عنه أنه قال: سمعت عبد الله بن أبي أوفى، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "حبك للشيء يعمي ويُصم، والدال على الشر كمثله". 

صحيح البخاري (8 / 20):

 "عن سالم بن عبد الله، قال: سمعت أبا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " كل أمتي معافى إلا المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله عليه، فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201156

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں