بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۂ اعراف کی آیت نمبر 204 کی تفسیر


سوال

سورت اعراف کی آیت نمبر 204 کہاں،  کس موقع پر نازل ہوئی؟برائے مہربانی تفصیل سے بتا کر ہماری راہ نمائی کریں!

جواب

سورۂ اعراف کی آیت مبارکہ ''وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ''کے شان نزول کے بارے میں روایات مختلف ہیں بعض مفسرین کے نزدیک یہ حکم نماز کی قرأت کے بارے میں آیا ہے، بعض نے اسے خطبے پر محمول کیا ہے ،اور بعض حضرات لکھتے ہیں کہ یہ آیت مطلقاً قرآن کریم کی تلاوت سے متعلق ہے ، خواہ نماز میں ہو یا خطبہ میں ہو یا عام  حالات میں۔جمہور مفسرین کے نزدیک راجح  یہ ہے کہ جس طرح آیت کے الفاظ عام ہیں اسی طرح اس کا حکم بھی سب حالات کے لیے عام ہے بجز چند مواقع کے ۔

اسی لیے احناف  نے اس آیت سے اس پر استدلال کیا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدیوں کو قرأت نہیں کرنا چاہیے، یعنی نماز میں جب امام قرأت کرے تو مقتدی کو سننا اور خاموش رہنا چاہیے امام کی آواز آئے یا نہ آئے۔ جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "وإذاقرأ فانصتوا" (جب نماز میں امام قرأت کرے تو چپ رہو)۔تفسیر قرطبی میں ہے:

’’قيل: إن هذا نزل في الصلاة، روي عن ابن مسعود وأبي هريرة وجابر والزهري وعبيد الله بن عمير وعطاء بن أبي رباح وسعيد بن المسيب. قال سعيد: كان المشركون يأتون رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذا صلى، فيقول بعضهم لبعض بمكة:" لا تَسْمَعُوا لِهذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ «2»". فأنزل الله جل وعز جوابا لهم": وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا 20". وقيل: إنها نزلت في الخطبة، قاله سعيد بن جبير ومجاهد وعطاء وعمرو بن دينار وزيد بن أسلم والقاسم بن مخيمرة ومسلم بن يسار وشهر بن حوشب وعبد الله بن المبارك. وهذا ضعيف، لأن القرآن فيها قليل، والإنصات يجب في جميعها، قاله ابن العربي. النقاش: والآية مكية، ولم يكن بمكة خطبة ولا جمعة. وذكر الطبري عن سعيد بن جبير أيضاً أن هذا في الإنصات يوم الأضحى ويوم الفطر ويوم الجمعة، وفيما يجهر به الإمام فهوعام. وهو الصحيح''۔ (7/353)

تفسیر مظہری میں ہے:

’’وقال قوم: نزلت الآية فى ترك الجهر بالقراءة خلف الامام، قال البغوي: روى زيد بن اسلم عن أبيه عن أبى هريرة قال: نزلت هذه الآية فى رفع الأصوات خلف رسول اللّه صلى اللّه عليه وآله وسلم فى الصلاة، وذكر البغوي عن المقداد انه سمع ناساً يقرءون مع الإمام، فلما انصرف قال: أما إن لكم أن تفقهوا إذا قرأ القرآن فاستمعوا له وانصتوا، كما أمركم اللّه، قال البغوي: وهذا قول الحسن والزهري والنخعي: إن الآية فى القراءة فى الصلاة خلف الامام، قال البغوي: وهذا أولى ممن قال: إنها نزلت للإنصات فى الخطبة؛ لأن الآية مكية والجمعة وجبت بالمدينة، وقال ابن همام: أخرج البيهقي عن الإمام أحمد، قال: أجمع الناس على أن هذه الآية فى الصلاة، وأخرج عن مجاهد كان عليه السلام يقرأ فى الصلاة فسمع قراءة فتى من الأنصار، فنزل وإذا قرأ القرآن فاستمعوا له وانصتوا''۔(1/1415)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143906200031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں