بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورہ نساء کی ایک آیت کی تفسیراورمتعہ کی حرمت


سوال

مجھے سورہ نساء کی ایک آیت کے بارے میں پوچھناہے جوپانچویں پارے کی پہلی آیت ہے، جس میں متعہ کاذکرہے،جس کامفہوم یہ ہے کہ’’اورجن عورتوں سے تم متعہ کروتوان کاحق مہرجو تم پراجب ہے انہیں اداکردو،اورتم پراس کی نسبت کوئی گناہ نہیں‘‘۔میراسوال یہ ہے کہ کیایہ متعہ حلال ہے؟اوراگرنہیں تواس کے ممنوع ہونے کی دلیل بتادیں۔

جواب

آیت مذکورہ میں ’’استمعتم‘‘سے کیامرادہے،اورمتعہ کی حلت وحرمت سے متعلق تسلی بخش کلام مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے اپنی تفسیرمعارف القرآن مذکورہ آیت کے تحت کیاہے۔اسے ذیل میں نقل کیاجاتاہے ،جس میں آپ کے سوالات کے تفصیلی جوابات موجودہیں:

’’فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضة ، یعنی نکاح کے بعد جن عورتوں سے استمتاع کر لو تو ان کے مہر دیدو ، یہ دینا تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے۔

اس آیت میں استمتاع سے بیویوں سے ہمبستر ہونا اور وطی کرنا مراد ہے، اگر محض نکاح ہو جائے اور رخصتی نہ ہو اور شوہر کو استمتاع کا موقع نہ ملے، بلکہ وہ اس سے پہلے ہی طلاق دیدے تو آدھا مہر واجب ہوتا ہے اور اگر استمتاع کا موقع مل جائے تو پورا مہر واجب ہو جاتا ہے، اس آیت میں خصوصی توجہ دلائی ہے کہ جب کسی عورت سے استمتاع کر لیا تو اس کا مہر دینا ہر طرح سے واجب ہو گیا، اس میں کوتاہی ہی کرنا شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے اور انسانی غیرت کا بھی یہ تقاضا ہے کہ جب نکاح کا مقصد حاصل ہو گیا تو بیوی کے حق میں کوتاہی اور ٹال مٹول نہ ہو ........ البتہ شریعت عورت کو یہ حق بھی دیتی ہے کہ مہر اگر معجل ہے تو مہر کی وصولی تک وہ شوہر کے پاس جانے سے انکار کر سکتی ہے۔

حرمت متعہ: لفظ استمتاع کا مادہ، م ، ت ، ع ہے، جس کے معنی کسی فائدہ کے حاصل ہونے کے ہیں، کسی شخص سے یا مال سے کوئی فائدہ حاصل کیا تو اس کو استمتاع کہتے ہیں، عربی قواعد کی رو سے کسی کلمہ کے مادہ میں ساورت کا اضافہ کر دینے سے طلب و حصول کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں اس لغوی تحقیق کی بنیاد پر فما استعتم کا سیدھا مطلب پوری امت کے نزدیک خلفاً عن سلف وہی ہے، جو ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے، لیکن ایک فرقہ کا کہنا ہے کہ اس سے اصطلاحی متعہ مراد ہے اور ان لوگوں کے نزدیک یہ آیت متعہ حلال ہونے کی دلیل ہے، حالانکہ متعہ جس کو کہتے ہیں اس کی صاف تردید قرآن کریم کی آیت بالا میں لفظ محصنین غیر مسافحین سے ہو رہی ہے، جس کی تشریح آگے آ رہی ہے۔

متعہ اصطلاحی جس کے جواز کا ایک فرقہ مدعی ہے یہ ہے کہ ایک مرد کسی عورت سے یوں کہے کہ اتنے دن کے لئے اتنے پیسے فلاں جنس کے عوض میں تم سے متعہ کرتا ہوں، متعہ اصطلاحی کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، محض مادہ اشتقاق کو دیکھ کر یہ فرقہ مدعی ہے کہ آیت سے حلت متعہ کا ثبوت ہو رہا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جب دوسرے معنی بھی کم از کم متحمل ہے (گو ہمارے نزدیک متعین ہے) تو ثبوت کا کیا راستہ ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے محرکات کا ذکر فرما کر یوں فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ اپنے اصول کے ذریعے حلال عورتیں تلاش کرو، اس حال میں کہ پانی بہانے والے نہ ہوں یعنی محض شہوت رانی مقصود نہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ محصنین کی بھی قید لگائی ہے، یعنی یہ کہ عفت کا دھیان رکھنے والے ہوں ........ متعہ چونکہ مخصوص وقت کے لئے کیا جاتا ہے، اس لئے اس میں نہ حصول اولاد مقصود ہوتا ہے، نہ گھر بار بسانا اور نہ عفت و عصمت اور اسی لیےجس عورت سے متعہ کیا جائے اس کو فریق مخالف زوجہ وارثہ بھی قرار نہیں دیتا اور اس کو ازواج معروفہ کی گنتی میں بھی شمار نہیں کرتا ........ اور چونکہ مقصد محض قضاء شہوت ہے، اس لئے مرد و عورت عارضی طور پر نئے نئے جوڑے تلاش کرتے رہتے ہیں جب یہ صورت ہے تو متعہ عفت و عصمت کا ضامن نہیں بلکہ دشمن ہے۔

صاحب ہدایہ نے حضرت امام مالک کی طرف منسوب کیا ہے کہ ان کے نزدیک متعہ جائز ہے، لیکن یہ نسبت بالکل غلط ہے، جیسا کہ شراح ہدایہ اور دیگر اکابر نے تصریح کی ہے کہ صاحب ہدایہ سے تسامح ہوا ہے۔

البتہ بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اخیر تک حلت متعہ کے قائل تھے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، امام ترمذی نے باب ماجاء فی نکاح المتعہ کا باب قائم کر کے دو حدیثیں نقل کی ہیں، پہلی حدیث یہ ہے:

”حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھو کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔“

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔

دوسری حدیث جو امام ترمذی نے نقل کی ہے وہ یہ ہے :

”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں متعہ اسلام کے عہد اول میں مشروع تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ الا علی ازواجہم اوماملکت ایمانہم نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہو گیا، اس کے بعد حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ زوجہ شرعیہ اور مملوکہ شرعیہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔“

البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت ابن عباس کچھ عرصہ تک متعہ کو جائز سمجھتے تھے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سمجھانے سے (جیسا کہ صحیح مسلم ج ۱ ص ۲۵٤ پر ہے) اور آیت شریفہ الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم سے متنبہ ہو کر رجوع فرما لیا، جیسا کہ ترمذی کی روایات سے معلوم ہوا۔

یہ عجیب بات ہے کہ جو فرقہ حلت متعہ کا قائل ہے باوجودیکہ اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے محب اور فرمانبردار ہونے کا دعویٰ ہے، لیکن اس مسئلہ میں وہ ان کا بھی مخالف ہے، وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون (٦۲:۷۲۲)

صاحب روح المعانی، قاضی عیاض سے نقل کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر سے پہلے متعہ حلال تھا پھر غزوہ خیبر میں حرام کر دیا گیا، اس کے بعد فتح مکہ کے دن حلال کر دیا گیا، لیکن پھر تین دن کے بعد ہمیشہ کے لئے حرام کر دیا گیا۔

نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ فرمان باری تعالی شانہ والذین ھم لفروجھتم حافظون الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین، یہ ایسا واضح ارشاد ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں، اس سے حرمت متعہ صاف ظاہر ہے، اس کے مقابل ہمیں بعض شاذ قراءتوں کا سہارا لینا قطعاً غلط ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا استمتعتم سے متعہ اصطلاحی مراد ہونے کی کوئی قطعی دلیل نہیں ہے، محض ایک احتمال ہے، یہ احتمال الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم کے قطعی الدلات مضمون کے ہرگز معارض نہیں ہو سکتا اور بالفرض اگر دونوں دلیلیں قوت میں برابر ہوں تو کہا جائے گا وہ دونوں دلیلیں حلت و حرمت میں متعارض ہیں، بالفرض اگر تعارض مان لیا جائے تب بھی عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ محرم کو مبیح پر ترجیح ہونی چاہئے۔

مسئلہ: نکاح متعہ کی طرح نکاح موقت بھی حرام اور باطل ہے، نکاح موقت یہ ہے کہ ایک مقررہ مدت کے لئے نکاح کیا جائے ........ اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ متعہ میں لفظ متعہ بولا جاتا ہے اور نکاح موقت لفظ نکاح سے ہوتا ہے۔

ولا جناح علیکم فیماتراضیتم بہ من بعد الفریضة آیت کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ باہمی مہر مقرر کرنے کے بعد مہر مقررہ کوئی حتمی چیز نہیں ہوتی کہ اس میں کمی بیشی درست نہ ہو، بلکہ شوہر مقرر مہر پر اپنی طرف سے اضافہ بھی کر سکتا ہے اور بیوی اگر چاہے تو اپنی خوش دلی سے تھوڑا یا پورا مہر معاف کر سکتی ہے، الفاظ کے عموم سے معلوم ہوا کہ عورت اگر مہر معجل طے کر کے تاجیل کر لے، یعنی بعد میں لینے کو منظور کر لے تو یہ بھی درست ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ۔

ان اللہ کان علیماً حکیماً، آیت کے ختم پر یہ جملہ بڑھا کر ایک تو یہ بتایا کہ اللہ تعالی کو سب کچھ خبر ہے، احکام مذکورہ کی اگر کوئی شخص خلاف ورزی کرے تو اگرچہ اس کی خبر قاضی، حاکم اور کس انسان کو نہ ہو، لیکن اللہ جل شانہ کو تو سب خبر ہے، اس سے ہر حال میں ڈرتے رہنا چاہئے۔

اور یہ بھی بتلایا کہ جو احکام ارشا دفرمائے ہیں یہ سب کچھ حکمت پر مبنی ہیں، حکمت اس دقیق بات کو کہتے ہیں جو ہر شخص کی سمجھ میں نہیں آتی، حرمت و حلت کے احکام جو آیات میں مذکور ہیں ان کی علت کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے ان کو ہر حال میں ماننا لازم ہے، کیونکہ اگر ہمیں علت معلم نہیں تو صاحب حکم باری تعالی شانہ کو تو معلوم ہے جو علیم اور حکیم ہے۔

اس دور کے بہت سے پڑھے لکھے جاہل احکام خداوندیہ کی علتیں تلاش کرتے ہیں، اگر کوئی علت معلوم نہیں ہوتی تو معاذ اللہ حکم ربی کو نامناسب یا دور حاضر کے تقاضوں کے خلاف کہہ کر ٹال دیتے ہیں، ان الفاظ میں ایسے لوگوں کا منہ بند کر دیا گیا ہے اور بتلا دیا گیا ہے کہ تم نادان ہو، اللہ جل شانہ، دانا ہے تم ناسمجھ ہو اللہ حکیم ہے، اپنی سمجھ کو معیار حقانیت نہ بناء واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم‘‘۔(معارف القرآن)

مزیدتفصیل کے لیے حضرت مولانامحمدادریس کاندہلوی رحمہ اللہ کی تفسیرمعارف القرآن مذکورہ آیت کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔فقط اللہ اعلم


فتوی نمبر : 143707200017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں