بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورہ فاتحہ کے بعد دوسری شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا


سوال

مفتی شفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد دوسری شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھنا چاہیے، یہ بات کہاں تک صحیح ہے؟

جواب

نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت نہیں ہے، یعنی نبی کریم ﷺ اور خلفاءِ راشدین سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ بعض فقہاءِ کرام نے اسے مستحب لکھا ہے، خواہ نماز سری ہو یا جہری۔ اور اس قول کے مطابق فتویٰ دیا جاتاہے کہ نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد اگر نئی سورت شروع کرنی ہو تو بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے، یعنی استحباب کے قائلین اسے سنت کہہ کر، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت کہہ کر پڑھنے کا نہیں کہتے، بلکہ تلاوت کے آداب میں چوں کہ یہ شامل ہے کہ نئی سورت سے پہلے ﷽ ہونی چاہیے، لہٰذا نماز میں بھی جب نئی سورت تلاوت کرنا شروع کرے تو بسم اللہ پڑھنا تلاوت کا ادب ہے، بہر حال یہ ضروری نہیں ہے۔

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے معارف القرآن، میں سورہ فاتحہ سے پہلے ﷽ کی تفسیر کے ذیل میں بسم اللہ سے متعلقہ اَحکام بیان کرتے ہوئے، جو کلام کیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ مفتی صاحب رحمہ اللہ سورہ فاتحہ اور سورت کے درمیان بسم اللہ پڑھنے کے سنت ہونے کی نفی فرما رہے ہیں، اور اس کی تائید میں آپ نے چند کتبِ فقہ کا حوالہ بھی دیا ہے کہ ان کے ہاں یہی راجح ہے، جہاں تک سورۂ فاتحہ اور سورت کے درمیان تسمیہ پڑھنے کے جواز کی بات ہے تو خود مفتی صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ  اس جگہ بسم اللہ پڑھنے کے مکروہ نہ ہونے پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ اس سنیت کی نفی کرتے ہوئے مفتی صاحب رحمہ اللہ نے یہ تحریر فرمادیا کہ سورہ فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ مطلقاً نفی نہیں کی ہے۔ واللہ اعلم ( معارف القرآن 77-1)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 260):
"ثم أعلم أنه لا فرق في الإتيان بالبسملة بين الصلاة الجهرية والسرية، وفي حاشية المؤلف على الدرر: واتفقوا على عدم الكراهة في ذكرها بين الفاتحة والسورة، بل هو حسن، سواء كانت الصلاة سريةً أو جهريةً، وينافيه ما في القهستاني: أنه لايسمي بين الفاتحة والسورة في قولهما، وفي رواية عن محمد، قال في المضمرات: والفتوى على قولهما، وعن محمد: أنها تسن في السرية دون الجهرية؛ لئلايلزم الإخفاء بين جهرين وهو شنيع، واختاره في العناية والمحيط، وقال في شرح الضياء: لفظ الفتوى آكد من المختار، وما في الحاشية تبع فيه الكمال وتلميذه ابن أمير حاج حيث رجحا أن الخلاف في السنية، فلا خلاف أنه لو سمي لكان حسنًا لشبهة الخلاف في كونها آيةً من كل سورة، ثم هل يخص هذا بما إذا قرأ السورة من أولها أو يشمل ما إذا قرأ من أوسطها آيات مثلاً، وظاهر تعليلهم كون الإتيان بها لشبهة الخلاف في كونها آيةً من كل سورة يفيد الأول، كذا بحثه بعض الأفاضل". 

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 282):
"فلاتسنّ التسمية بين الفاتحة والسورة، ولا كراهة فيها وإن فعلها اتفاقًا للسورة سواء جهر أو خافت بالسورة، وغلط من قال: لايسمي إلا في الركعة الأولى".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 490):
"(قوله: ولاتكره اتفاقًا) ولهذا صرح في الذخيرة والمجتبى بأنه إن سمى بين الفاتحة والسورة المقروءة سرًّا أو جهرًا كان حسنًا عند أبي حنيفة، ورجحه المحقق ابن الهمام وتلميذه الحلبي لشبهة الاختلاف في كونها آيةً من كل سورة، بحر". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں