بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورج زمین کے گرد گھومتا ہے یا زمین سورج کے گرد گھومتی ہے؟ کیا قرآن کریم میں اس کا تذکرہ ہے؟


سوال

کیا سورج زمین  کے گرد گھومتی ہے یا زمین سورج  کے گرد؟ اسلام اور قرآن مجید کی روشنی میں جواب دیجیے!

جواب

                        جواب سے پہلے بطورِ تمہید یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ یہ بات کہ زمین اور سورج میں سے کون کس کے گرد گھوم رہا ہے؟ یا اس جیسی دیگر سائنسی و فنی معلومات قرآن و حدیث اور دینِ اسلام کا اساسی موضوع اور مقصد نہیں ہے، اسی لیے قرآن و حدیث میں اس بارے میں صراحتاً  کوئی بحث نہیں کی گئی، اور نہ ہی دین کے کسی اعتقادی یا فروعی مسئلہ کا اس بات سے کوئی تعلق ہے، لہٰذا محض فنی معلومات کی غرض سے ان باتوں کی کھوج میں لگنا اور  قرآن و حدیث سے  بتکلف ان باتوں کو ثابت کرنے کی کوشش میں غلو کرنا مقصدِ حیات سے صرفِ نظر کرنے کے مترادف ہے، البتہ قرآن و حدیث میں جہاں طبیعیات اور نظام کائنات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اس کا مقصد تخلیقِ الٰہی میں غور کر کے معرفتِ الٰہی تک پہنچنا ہے، اس لیے اگر کوئی معرفتِ الٰہی کے حصول اور قدرتِ خداوندی پر یقین میں اضافے  کی نیت سے نظامِ کائنات  پر غور کرتاہے، اور اس سے متعلقہ علوم حاصل کرتا ہے تو یہ عین مقصود ہے۔

چنانچہ امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

                             ’’آفتاب و ماہتاب کی طرف جاری ہونے کے فعل کے انتساب کو یہ سمجھ  لینا کہ رات اور دن کا جو چکر ہمارے سامنے جاری ہے اس کی اصل حقیقت کو قرآن واشگاف کرنا چاہتا ہے، اس کا مطلب تو پھر وہی ہوا کہ اپنی معلومات کو ظاہر کرنے کے لیے قرآن کو حق تعالیٰ نے نازل فرمایا، لیکن جب معلوم ہوچکا کہ قرآن کے موضوعِ بحث سے جو جاہل ہے، وہی اس قسم کے مالیخولیا میں مبتلا ہوسکتا ہے، تو حوادثِ کائنات کی توجیہ و تاویل کے قصوں کو قرآن میں ڈھونڈنا یا اس سلسلہ میں قرآن کی طرف کسی قطعی فیصلہ کی جرأت خود اپنی عقل کی بھی اہانت ہے، اور ایسے عیب و نقص کو قرآن کی طرف منسوب کرنا ہے جسے عرض کرچکا ہوں کہ کوئی صحیح العقل آدمی بھی اپنی تصنیف میں پسند نہیں کرسکتا، دیوانہ ہی ہوگا جو تاریخ کی کتاب میں ڈاکٹری نسخوں کا ذکر چھیڑ دے  یا طب کی کتاب میں شعر و ادب کی تنقید ڈھونڈنے لگے، بہرحال رات اور دن کے الٹ پھیر کے واقعی اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، زمین گھومتی ہو یا آفتاب چکرا رہا ہو، یا آسمان گردش میں ہو، قرآنی مباحث کے دائرے سے یہ سوالات خارج ہیں‘‘۔  (احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن، از مولانا مناظر احسن گیلانی، ص:۱۲۲)

حضرت مولانا محمد  یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

                     ’’قرآنِ کریم نہ تاریخی کتاب ہے کہ محض واقعات کی تفصیل ہی بیان کرتا رہے اور نہ ہی طبعی نوامیس کی تفصیل و بیان پر مشتمل کتابِ طبعیات ہے کہ محض علمی و  ذہنی عیاشی کے افسانوں میں وقت ضائع کرے۔ وہ (یعنی قرآن) تاریخ کی روح پیش کرتا ہے اور طبعیات کے فکر و نتائج بیان کرتا ہے جس سے توحیدِ الٰہی، خلق و ربوبیت کے حقائق انسان کے دل میں پیوست ہوں اور روح کو پاکیزگی حاصل ہو؛  تاکہ وہ نظامِ عالم میں خلیفۃ اللٰہ کے منصبِ اعلیٰ کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہل بن جائے، قرآن اگر کائنات میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے تو اس کی غرض و غایت یہی ہوتی ہے کہ انسانی ذہن و فکر کے سامنے اللٰہ کی معرفت کا راستہ کھل جائے۔‘‘ (بصائر و عبر، ج: ۱ ، ص: ۳۴۳، مکتبہ بینات )

امداد الفتاویٰ میں ہے:

                       ’’قرآن جس فن کی کتاب ہے اس میں سب سے ممتاز ہونا، یہ فخر کی بات ہے،  یعنی اثباتِ توحید و اثباتِ معاد و اصلاحِ ظاہر و باطن، اگر سائنس کا ایک مسئلہ بھی اس میں نہ ہو تو کوئی عیب نہیں، اور اگر سائنس کے سب مسئلہ ہوں تو فخر نہیں،  قرآن کو ایسی خیر خواہی کی ضرورت نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب‘‘۔  (امداد الفتاویٰ جدید، ج:۱۲، ص: ۳۳۷ )

                          قرآن کریم کتابِ ہدایت ہے جو  تمام دنیا کے انسانوں کی ہدایت کے واسطے اتاری گئی ہے، قرآنِ کریم کا مقصود علمِ طبعیات کی تفصیلات بیان کرنا نہیں ہے، البتہ قرآنِ کریم میں بعض مواقع پر علمِ طبعیات کی طرف کچھ اشارات موجود ہیں، لہٰذا  قرآنِ کریم میں جہاں کہیں علمِ طبعیات سے متعلق صراحتاً  یا ضمناً کچھ مذکور ہے اس پر یقین رکھنا فرض اور ایمان کا جزءِ لازم ہے، خواہ سائنسی تحقیقات اس کے موافق ہوں یا متصادم ہوں۔

                         قرآنِ کریم کی تصریحات کے مطابق شمس و قمر  آسمان میں مرکوز  (گڑھے ہوئے ) نہیں ہیں (جیسا کہ قدیم سائنسی نظریہ تھا جس کو جدید سائنس نے غلط ثابت کردیا ہے)، بلکہ شمس و قمر آسمان کے نیچے اپنے اپنے محور و مدار میں گھوم رہے ہیں۔

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

                             ’’ {وَ کُلٌّ فِيْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ}  یعنی آفتاب و مہتاب دونوں اپنے اپنے مدار میں تیرتے رہتے ہیں، ’’فلک‘‘  کے لفظی معنیٰ آسمان کے نہیں،  بلکہ اس دائرہ کے ہیں جس میں کوئی سیارہ حرکت کرتا ہے،  یہ آیت سورۂ انبیاء میں بھی گزر چکی ہے، جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ چاند کسی آسمان کے اندر مرکوز نہیں، جیسا کہ بطلیموسی نظریۂ ہیئت میں ہے، بلکہ وہ آسمان کے نیچے ایک خاص مدار میں حرکت کرتا ہے، اور آج کل کی نئی تحقیقات اور چاند تک انسان کی رسائی کے واقعات نے اس کو بالکل یقینی بنادیا ہے‘‘۔ (معارف القرآن، ج:۷ ،ص:۳۹۳، ادارۃ المعارف )

ایک اور جگہ پر مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللٰہ فرماتے ہیں:

                          ’’قرآن و حدیث کی مذکورہ تصریحات سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوئی کہ شمس و قمر دونوں متحرک ہیں، ایک میعاد کے  لیے چل رہے ہیں، اس سے اس نظریہ کی نفی ہوتی ہے جو آفتاب کی حرکت تسلیم نہیں کرتا اور جدید ترین تحقیقات نے خود بھی اس کو غلط ثابت کردیا ہے‘‘۔ (معارف القرآن ، ج:۷ ،ص:۳۹۳، ادارۃ المعارف )

                      البتہ یہ بات کہ زمین بھی گھوم رہی ہے یا ساکن ہے؟ اور سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے یا زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے؟ اس کا کوئی تذکرہ قرآن و حدیث میں نہیں ہے، اور اس بارے میں خود قدیم اور جدید ماہرین علمِ طبعیات کی آراء مختلف رہی ہیں، علمِ طبعیات کے ماہرین (سائنس دانوں) نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ سورج، چاند اور باقی سیارات آسمان کے اجسام میں یوں گڑے ہوئے ہیں جیسا کہ کیل دیوار میں پیوست ہوتی ہے،  نیز فلاسفۂ ہیئتِ قدیمہ کی رائے کے مطابق سورج والا آسمان (جس میں سورج پیوست ہے وہ) زمین کے گرد مشرق کی طرف گردش کرتے ہوئے، ایک سال میں دورہ پورا کرتا ہے، جب کہ زمین ساکن ہے،متحرک نہیں،  یہ نظریہ بطلیموس کا تھا، اس کے بعد والوں نے پھر اس نظریہ کو  رد کرکے دوسرا نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور زمین متحرک ہے، لیکن اب جدید تحقیق نے اس نظریہ کو بھی غلط ثابت کردیا ہے، سائنس دانوں کی  جدید تحقیق کے مطابق چاند، سورج، زمین اور باقی تمام سیارات  آسمان کے نیچے کھلی فضا میں معلق ہیں اور اپنے اپنے محور میں گھوم رہے ہیں، نیز  زمین اپنے محور میں سورج کے گرد  مغرب سے مشرق  کی طرف گھوم رہی ہے، سورج اور دیگر سیارات زمین کے گرد نہیں گھوم رہے ہیں، لیکن زمین کی اس حرکت کی وجہ سے تمام اجرامِ سماویہ (شمس و قمر، ستارے اور سیارے وغیرہ) ظاہری نگاہ میں زمین کے گرد مشرق سے مغرب کی طرف گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس جدید نظریہ اور ہیئتِ جدیدہ کے بانی و مؤسس مشہور ماہرِ علمِ ہیئت ابو اسحٰق ابراہیم زرقالی اندلسی قرطبی ہیں جو کہ علماءِ اسلام میں سے ہیں، جن کی وفات ۱۰۸۷ء میں ہوئی، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ کوپرنیکس پولینڈی ( جو کہ اہلِ یورپ کے نزدیک ہیئتِ جدیدہ کا واضع اور مؤسس ہے) نے اپنی تصنیف میں واضح طور اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جدید ہیئت کا یہ نظریہ، اصول اور جدید مسائل کی تفصیلات وغیرہ اس نے زرقالی وغیرہ بعض مسلمان ماہرین ھیئت کی کتابوں سے اخذ کی ہیں۔

ذیل میں اس موضوع کے بارے میں  علماءِ اسلام کی آراء ذکر کی جاتی ہیں:

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللٰہ تحریر فرماتے ہیں:

                       ’’قرآن و حدیث نے کہیں بھی یہ تصریح نہیں کی کہ یہ چاند  سورج اَفلاک میں جڑے ہوئے ہیں، یہ تو صرف بطلیموسی ہیئت کی پیداوار ہے کہ سبع سیارات آسمانوں میں ہیں، لیکن جدید  ہیئات  نے اس بطلیموسی نظام کی غلط بینی ثابت کردی ہے کہ یہ فضا میں معلق ہیں، فیثا غورس کا نظریہ بطلیموس کے خلاف تھا، وہ ان سب کو فضا میں مانتے تھے اور یہ بھی کہیں نظر سے گزرا ہے کہ فیثاغورس زمین کی حرکت کے بھی قائل تھے اور کچھ بعید بھی نہیں، اس لیے کہ کہتے ہیں فیثا غورس حضرت ادریس علیہ السلام کے شاگرد تھے اور ان سے ہی مستفید تھے، ہوسکتا ہے کہ وحی آسمانی کی برکت سے ان کا نظریہ صحیح ہوگیا ہو ، علماءِ اسلام میں سے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمہ اللٰہ زمین کی حرکت کے قائل تھے، قرآنِ حکیم کی تعبیر  {وَ لَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ} کا صاف مطلب یہی ہے کہ یہ تمام نجوم اور سیارے ، چاند اور سورج آسمانِ دنیا کے نیچے ہیں اور اس نیلگوں آسمان کے لیے آرائش و زینت کا کام کرتے ہیں۔‘‘ (بصائر و عبر، ج:۱، ص:۳۵۶ )

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللٰہ تحریر فرماتے ہیں:

                       ’’ {کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی}:  اس سے معلوم ہوا کہ شمس و قمر دونوں حرکت کرتے ہیں، فلکیات اور طبقات الارض کی مادی تحقیقات قرآنِ پاک یا کسی بھی آسمانی کتاب کا موضوعِ بحث نہیں ہوتا، مگر اس بارے میں جتنی بات کہیں ضمناً  آجاتی ہے اس پر یقین رکھنا فرض ہے، فلاسفہ کی قدیم و جدید تحقیقات تو موم کی ناک ہیں، روز بدلتی رہتی ہیں، قرآنی حقائق غیر متبدل ہیں، آیتِ مذکورہ نے جتنی بات بتلائی کہ چاند اور سورج حرکت کر رہے ہیں اس پر یقین رکھنا فرض ہے، اب رہا یہ معاملہ کہ ہمارے سامنے آفتاب کا طلوع و غروب زمین کی حرکت سے ہے یا خود ان سیاروں کی حرکت سے؟  قرآنِ پاک نہ اس کا اثبات کرتا ہے اور نہ اس کی نفی، تجربہ سے جو کچھ معلوم ہوا اس کے ماننے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (معارف القرآن، سورہ زمر،ج:۷،ص:۵۳۸، ادارۃ المعارف )

مشہور ماہرِ علمِ  طبعیات حضرت مولانا موسیٰ روحانی البازی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

                     ’’ہیئتِ جدیدہ  کے اصولوں اور ضوابط  کی تعداد کافی زیادہ ہے، لیکن یہ چار اصول نہایت اہم ہونے کے علاوہ اساس و بنیاد ہونے کی حیثیت سے مشہور ہیں:

                   پہلی اصل اور پہلا قانون یہ ہے کہ ستاروں کی یومی حرکت اور  ۲۴ گھنٹوں کے اندر ان کے طلوع و غروب کا سبب زمین کی گردش ہے، زمین اپنے محور کے اندر لٹو کی طرح مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتے ہوئے ہر ۲۴ گھنٹے میں یہ دورہ مکمل کرتی ہے، زمین کی بطرفِ مشرق اس گردش کی وجہ سے ستارے، سورج اور سیارے وغیرہ تمام اجرامِ سماویہ الٹی جانب یعنی مشرق سے بطرفِ مغرب گردش کرتے ہوئے ۲۴ گھنٹے میں دورہ مکمل کرتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص تیز رفتار گاڑی میں سوار ہو، اس کی گاڑی بطرفِ مشرق چل رہی ہو تو اسے سڑک کے کنارے درخت برعکس یعنی مغرب کی طرف چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

                       دوسری اصل و قانون یہ ہے کہ زمین آفتاب کے گرد گھومتے ہوئے ایک سال میں دورہ مکمل کرتی ہے، یہ زمین کی سالانہ حرکت ہے، زمین کی اس حرکت کی وجہ سے زمین پر سال میں مختلف موسم آتے رہتے ہیں، یعنی موسم سرما،موسم گرما، بہار و خزاں۔ زمین کی اس حرکت کی وجہ سے آفتاب دائرہ بروج میں زمین کے گرد بطرف مشرق چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے، یہ دراصل زمین ہی کی سالانہ حرکت ہے، اس کے برخلاف ہیئتِ قدیمہ یونانی والے فلاسفہ کہتے ہیں کہ زمین نہیں گھومتی، وہ تو ساکن ہے اور سورج یا فلکِ شمس ذاتی حرکت سے زمین کے گرد بطرفِ مشرق حرکت کرتے ہوئے سال میں ایک دورہ مکمل کرتا ہے، شمس اور فلکِ شمس کی یہ ذاتی حرکت زمین پر موسموں کے ادل بدل کا سبب ہے ۔۔۔  یہ کوپرنیکس کی چوتھی اصل و قانون کا تذکرہ ہے، حاصل یہ ہے کہ آفتاب اور تمام سیارے اور اقمار بلکہ جملہ تارے بغیر کسی ظاہری سہارے کے وسیع فضا و خلا  میں یوں معلق اور گردش کناں ہیں جس طرح ہوائی جہاز کھلی فضا میں بغیر کسی ظاہری سہارے کے معلق اور متحرک ہوتا ہے، جدید ہیئت کے اصول کے مطابق آفتاب، سیاروں، ستاروں میں سے کوئی ایک بھی کسی بڑے جسم (مثل جسمِ سماواتِ قرآنیہ) میں ایسا مرتکز اور گڑا ہوا نہیں ہےجس طرح کیل جسمِ دیوار میں مرتکز اور ٹھونکی ہوئی ہوتی ہے ۔۔۔ حق یہ ہے کہ ہیئتِ جدیدہ کا واضع کوپرنیکس ہرگز نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کے بانی و مؤسس علماءِ اسلام میں سے مشہور ماہرِ ہیئت ابو اسحٰق ابراہیم زرقالی اندلسی قرطبی رحمہ اللہ ہیں جن کی وفات ۱۰۸۷ ء میں ہوئی  ۔۔۔  زرقالی رحمہ اللہ نے جدید ہیئت کا نظریہ اور مذکورۂ صدر چار اصول کے علاوہ جدید ہیئت کی تمام تفصیلات اپنی کتاب میں درج کی تھیں، کوپرنیکس  نے جدید ہیئت کا نظریہ زرقالی کی کتاب سے اخذ کیا ۔۔۔ کوپر نیکس اپنی تصنیف میں اعتراف کرتا ہے کہ اس نے جدید ہیئت کے بارے میں اپنا مذہب مسلم علماء زرقالی وغیرہ کے مذہب و رائے پر قائم کیا ہے‘‘۔  (الھیئۃ الوسطیٰ مع شرحھا النجوم النسطیٰ، ص:۱۴۔۔۴۴، ادارۃ التصنیف و الادب)

ایک اور جگہ پر حضرت نے تحریر فرمایا ہے:

                              ’’قرآن مجید کی آیت {اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهَادًا} (کیا ہم نے زمین کو جھولا نہیں بنایا) میں زمین کی سالانہ گردش کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے، بہت سے لوگوں نے ایامِ عید یا تفریحی میلوں میں وہ جھولا دیکھا ہوگا جس میں بچے بیٹھ  کر ایک دائرے میں اوپر نیچے چکر کھاتے رہتے ہیں، جھولے کی یہ گردش بعینہ آفتاب کے گرد زمین کی گردش کا نمونہ ہے۔‘‘ (الھیئۃ الوسطیٰ مع شرحھا النجوم النسطیٰ، ص: ۳۴۶ )

’’فلکیات جدیدہ‘‘ میں حضرت مولانا موسیٰ روحانی البازی صاحب تحریر فرماتے ہیں:

                               ’’ارسطو اور بطلیموس گردشِ ارض کے قائل نہ تھے، قدماءِ یونان میں کئی فلسفی گردشِ ارض کے معتقد تھے، جدید فلکیات کے ماہرین کے نزدیک زمین کی محوری اور سالانہ ’’حول الشمس‘‘ حرکت تقریباً  مسلم ہے ۔۔۔  تمام سماویات، ستارے، سیارے اور کہکشاں وغیرہ متحرک ہیں، کوئی وجہ نہیں کہ زمین گردش نہ کرے  ۔۔۔

 زمین کی حرکتیں دو ہیں: ۱) روزانہ یا محوری گردش۔      ۲)سالانہ گردش۔ 

                                ۱)زمین ۲۴ گھنٹوں میں مغرب سے بطرفِ مشرق دورہ تام کرتی ہے، اس گردش کو محوری حرکت کہتے ہیں، محوری حرکت کے اثرات یہ ہیں:

  (الف): دن اور رات پیدا ہوتے ہیں۔

  (ب) موسم خوش گوار  ہوکر زمین قابلِ رہائش ہوتی ہے ۔۔۔

(ج)اوقات مختلف ہوتے ہیں، ایک ہی وقت میں بعض شہروں پر دن اور بعض پر رات ہوتی ہے، اسی طرح نمازوں کے اوقات مختلف ہوتے ہیں ۔۔۔

(د)اختلافِ مطالع و مغارب ہوتا ہے ۔۔۔

                      ۲)زمین سورج کے گرد تقریباً  1/4    365  دنوں میں ایک دورہ مکمل کرتی ہے، دورہ کی یہ مدت سال کہلاتی ہے، ا سی وجہ سے اس حرکت کو سالانہ گردش کہتے ہیں، اس گردش میں زمین کبھی سریع ہوتی ہے کبھی بطئی ہوتی ہے،  برخلاف حرکتِ محوریہ کہ اس میں یہ فرق و تفاوت نہیں ۔۔۔ بعض مسلمان ماہرینِ ہیئت نے گردشِ ارض کا اعتقاد قرآن کے خلاف ٹھہرایا ، حال آں کہ یہ مسئلہ قرآنِ حکیم کے موضوع ’’ اصلاحِ خلق و تبلیغِ اخلاقِ طیبہ ‘‘ سے خارج ہے، قرآنِ کریم میں نہ سکون کی تصریح ہے اور نہ اس کی گردش کی تصریح، نہ اُس کا عقیدہ رکھنا قرآن کے خلاف ہے اور نہ اِس کا معتقد ہونا، اس کے فصیح و بلیغ بیان میں سکون کی بھی گنجائش ہے اور حرکت کی بھی، قرآن شریف خدائے عالم الغیب کی کتاب ہے، لہٰذا اس کے اصول اور طرزِ بیان کی سائنس کے صحیح اور یقینی انکشافات (تخمینی اور غیر یقینی نہیں) سے یگانگت اور ہم آہنگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ اس کے معجز کلام، جامع عبارات میں کئی سائنسی حقائق کی طرف اشارے پائے جاتے ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :  {اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهَادًا}  (کیا ہم نے زمین کو جھولا نہیں بنایا) ممکن ہے کہ اس آیت میں زمین کی سالانہ گردش حول الشمس کی طرف اشارہ ہو، ناظرین نے ایامِ عید یا تفریحی میلوں میں وہ جھولا ملاحظہ کیا ہوگا جس میں بچے بیٹھ  کر  ایک دائرے میں اوپر نیچے چکر کھاتے رہتے ہیں، جھولے کی یہ گردش بعینہ آفتاب کے گرد زمین کی گردش کا نمونہ ہے۔‘‘   (فلکیات جدیدہ، ص:۱۱۲، ۱۱۸، ۱۲۵، ۱۵۰ )

الاستاذ الحکیم الشیخ طنطاوی جوہری رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

            ’’(و كل) من الأرض و الشموس و الأقمار (في فلك يسبحون) كما يسبح السمك في الماء، فالشمس في مدارها حول كوكب من الكواكب الجاثي على ركبتيه  ولايدري مدة دورتها، والأرض تجري حول الشمس في سنة و حول نفسها في يوم و ليلة، والقمر يجري حول الأرض كل شهر ... انظر كيف يقول: (يسبحون) و معلوم أن السبح للسمك أليق مع أنّ الفلك القديم قد جعل الكواكب مركوزةً في الفلك أو في تدوير الفلك على ما تراه في اصطلاح القدماء ... إنما الذي يهمنا أن جمع الكواكب تسير على رأي الحديث في مدارات و تلك المدارات في عالم الأثير، فهي إذن كأنها سمك في بحر". (الجواهر في تفسیر القرآن الکریم، ج:۱۷، ص: ۱۴۴، سورة یٰس، مصطفیٰ البابي الحلبي و أولاده بمصر ) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012200918

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں