بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی کاروباری کے ساتھ قربانی میں شراکت


سوال

اگر کوئی شخص سودی کاروبار کرتا ہو، مثلاً: رہن وغیرہ، تو  کیا اس کے ساتھ شریک ہوکر قربانی جائز ہے؟

جواب

اگر کسی شریک کی آمدنی حرام کی ہو اور اس نے قربانی میں حرام مال سے ہی شرکت کی ہو تو ایسی صورت میں باقی شرکاء کی قربانی بھی نہیں ہوگی؛ لہذا سودی کاروبار والا شخص اگر حلال رقم سے قربانی کے جانور میں شراکت داری کرے تو اس کے ساتھ شراکت درست ہے، ورنہ اس کے ساتھ شراکت کرنے سے قربانی نہیں ہوگی۔

نیز واضح ہو کہ رہن مطلقاً سود نہیں ہے، بلکہ اس میں بعض صورتیں سود کے حکم میں ہوتی ہیں، مثلاً مرتہن (جس کے پاس کوئی چیز رہن رکھوائی جائے) کا مرہون (رہن رکھی ہوئی چیز) سے مستفید ہونا؛ اس لیے صرف رہن کی وجہ سے کسی کی قربانی ناجائز نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لايجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لايتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لايجوز عندنا". (۵ / ۳۰۴، رشیدیہ)

شامی میں ہے :

"قال في المنح هناك: وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي وكان من كبار علماء سمرقند أنه لايحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم، قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة، وما في المعتبرات على الحكم ، ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً، وتعقبه الحموي بأن ما كان رباً لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد أن الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح ، قلت: وما في الجواهر يفيد توفيقاً آخر يحمل ما في المعتبرات على غير المشروط وما مر على المشروط، وهو أولى من إبقاء التنافي ويؤيده ما ذكروه فيما لو أهدى المستقرض للمقرض إن كانت بشرط كره وإلا فلا، وأفتى في الخيرية فيمن رهن شجر الزيتون على أن يأكل المرتهن ثمرته نظير صبره بالدين بأنه يضمن". (۵ / ۱۶۶، سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں