بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی کاروبار کرنے کا حکم


سوال

سودی کاروبار کرنا کیساہے؟

جواب

سود ی کاروبار کرنا قرآن اور حدیث کی روشنی میں سراسر حرام اور ناجائز ہے، بلکہ سودی کاروبار کرنا وہ کبیرہ گناہ ہے  جس  کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں  جنگ کا اعلان فرمایا ہے۔قرآن کریم  میں ہے:

﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴾ [البقرة: 278، 279]

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا سود میں سے اگر تم مؤمن ہو۔ سو اگر تم ایسا نہیں کروگے تو سن لو اعلانِ جنگ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم توبہ کرو تو تمہارے اصل اموال تمہارے لیے ہیں نہ تم ظلم کروگے کسی پر اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔

صحيح البخاري (3/ 59)

''حدثنا آدم، حدثنا ابن أبي ذئب، حدثنا سعيد المقبري، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «ليأتين على الناس زمان، لا يبالي المرء بما أخذ المال، أمن حلال أم من حرام»۔

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا :لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ اس کی پرواہ نہیں کریں گے کہ حلال یا حرام کس ذریعہ سے مال حاصل کیا ہے۔

صحيح البخاري (3/ 59)

''حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جرير بن حازم، حدثنا أبو رجاء، عن سمرة بن جندب رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "رأيت الليلة رجلين أتياني، فأخرجاني إلى أرض مقدسة، فانطلقنا حتى أتينا على نهر من دم فيه رجل قائم، وعلى وسط النهر رجل بين يديه حجارة، فأقبل الرجل الذي في النهر، فإذا أراد الرجل أن يخرج رمى الرجل بحجر في فيه، فرده حيث كان، فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر، فيرجع كما كان، فقلت: ما هذا؟ فقال: الذي رأيته في النهر آكل الربا۔ "

ترجمہ :موسی بن اسماعیل، جریر بن حازم، ابورجاء، سمرہ بن جندب سے روایت کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا :میں نے دو آدمیوں کو خواب میں رات کو دیکھا کہ میرے پاس آئے اور مجھے ارض مقدس کی طرف لے چلے، وہ دونوں بھی چلے یہاں تک کہ ہم ایک خون کی نہر کے پاس پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا تھا اور نہر کے بیچ میں ایک آدمی تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے، تو وہ شخص جو نہر میں تھا آنے لگا جب اس نے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو اس شخص نے اسے پتھر مارا جو کنارے پر تھا، چناں چہ وہ وہیں لوٹ گیا جہاں پہلے تھا اور جب بھی وہ نکلنا چاہتا تو وہ اس کو پتھر مارتا ہے اور اس کو وہیں واپس کر دیتا جہاں وہ پہلے تھا، میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو اس شخص نے جواب دیا کہ کہ جس کو آپ نے نہر میں دیکھا ہے وہ سود کھانے والا ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201869

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں